Read More

برطانوی شہر میں بغیر ڈرائیور کاریں چلیں گی

برطانیہ کے شہر ملٹن کینز کی سڑکوں پر 2015 سے بغیر ڈرائیور کے کاریں چلنا شروع کر دیں گی
Read More

Slide 2 Title Here

Slide 2 Description Here
Read More

Slide 3 Title Here

Slide 3 Description Here
Read More

Slide 4 Title Here

Slide 4 Description Here
Read More

Slide 5 Title Here

Slide 5 Description Here

Wednesday 30 October 2013

قرآن ایک عظیم نعمت








اللہ تعالٰی نے انسانوں کے لئے بے شمار نعمتیں دنیا میں پیدا کی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی نعمت قرآن مجید ہے۔قرآن مجید ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ دنیا میں ہم کس طرح زندگی گزاریں تاکہ ہماری دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی اور مرنے کے بعد اللہ تعالٰی ہم کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائیں۔





یہ سب کسی بھی طور مشکل نہیں ہے۔ ہمیں کرنا صرف یہ ہے کہ ہم قرآن مجید سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔ اس میں جن باتوں کا حکم ہے اسے پورا کریں اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اس سے خود بھی بچنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی تلقین کریں۔ ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ قرآن مجید کی تعلیم ہر جگہ پھیلانے کی کوشش کریں۔ 





اللہ تعالٰی ہمارا مددگار ہو۔ آمین۔ 


Read More

Tuesday 29 October 2013

حضور صلى الله عليه و سلم کے محراب میں کھڑے ہو کر نفل پڑھنا







اس وقت مجھے وہ سہ پہر یاد آ رہی ہے جب شہاب کا بازو کھینچ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تھی کہ چلو اصحاب صفہ کے چبوترے پر تم بھی جا کر نفل ادا کرلو -


میں وہاں بڑی مشکل سے جگہ بنا کر آیا ہوں – اور ایک عرب صوفی کو اپنے پاکستانی صوفی ہونے کا یقین دلا کے آیا ہوں کہ ابھی میں اپنے بڑے بھائی کو لاتا ہوں - لیکن شہاب نے یہ کہہ کر اپنا بازو چھڑا لیا کہ اتنے بڑے مقام پر اور اتنی اونچی جگہ پر بیٹھ کر میں نفل نہیں ادا کر سکتا… میں یہیں ٹھیک ہوں بلکہ یہ بھی کسی کے کرم سے رعایت ملی ہوئی ہے کہ میں یہاں بیٹھا ہوں -

مجھے اس کی بات پر غصہ بھی آیا ور کفران نعمت پر افسوس بھی ہوا – لیکن وہ ایسا ہی تھا -

صبح بھی جب میں نے اس کو بتایا کہ چلو حضور کے محراب میں لوگ نفل ادا کر رہے ہیں تم بھی میرے ساتھ چلو میں جگہ بنوا دوں گا اور ایک دو دھکے لگا کر محراب خالی کروا دونگا لیکن وہ نہیں مانا اور شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا:

” یار حضور کے محراب میں کھڑے ہو کر نفل پڑھنا بڑے دل گردے کا کام ہے وہاں تو حضرت ابو بکر کو بھی تھرتھری آ گئی تھی میرا کیا منہ ہے جو اس جگہ کے قریب بھی جاؤں- میری شکل دیکھتے ہو یہ اس محراب میں کھڑے ہونے کے قابل ہے تم جاؤ اور وہاں جا کر نماز پڑھو اس مسجد کی بہاریں جتنی بھی لوٹ سکتے ہو لوٹ لو– ایسا موقع بار بار ہاتھ نہیں آتا -


ہر ہر مصلے سے، ہرکونے سے، اور ہر صف سے، جہاں جہاں موقع ملے اپنا حصہ بٹور لو اور جو حصہ تمہارا نہیں بھی ہے وہ بھی ہتھیا لو – ایسا چانس روز نہیں ملا کرتا – “


(اشفاق احمد کی کتاب "بابا صاحبا" سے اقتباس)


Read More

Monday 28 October 2013

میں 90 کی دھائی میں پیدا ہوا






میں 90 کی دھائی میں پیدا ہوا

جب سب سے مشہور کھیل “چھپن چھپائی“ ، “برف پانی “ اور “اونچ نیچ“ ہوتے تھے

جب سب سے بہترین میٹھے “پولکا“ ، “پاپ کارن“ “جوبلی“ اور “میچل ٹافی“ ہوتے تھے
جب پیپسی چھ روپے کی ہوا کرتے تھی

جب ہم ساڑھے سات بجے اسکول جانے سے پہلے پی ٹی وی پر کارٹون دیکھتے تھے

اور

شام سات بجے “ننجا ٹرٹلز“ اور “کیپٹن پلینٹ“ دیکھتے تھے

جب ہمیں موویز دیکھنے کی اجازت نہ ہوتی تھی اور ہم پھر بھی کسی طرح مینج کر لیتے تھے

جب ہمارا بہترین اثاثہ “ببل گمرز شوز“ ہوتے تھے

جب پچاس روپے عیدی ملنے کا مطلب ہوتا تھا کہ آپ امیر ہو گئے ہو

جب ہم “ اکڑ بکڑ بمبے بو “ سے فیصلے کیا کرتے تھے

جب ہمارے لیے سب سے خوفناک چیزیں “انجیکشنز“ ، “تاریک کمرے“ اور “قاری صاحب“ ہوا کرتے تھے

جب “ ونڈر بریڈ کی بی ایم ایکس سائیکل “ پورے محلے میں جیلسی کا سبب ہوتی تھی

جب کرکٹ کھیلتے ہوئے اصول ہوا کرتا تھا کہ گھر میں جانا آئوٹ ہے اور جو مارے گا وہی لے کر آئے گا

بچگانہ لیکن بہترین یادیں

نئی نسل یہ چیزیں کبھی انجوائے نہیں کرے گی

(خوبصورت یادیں - اجد تاج)


Read More

Saturday 26 October 2013

ٹیکنالوجی اور ہمارے سماجی رویے







لوگ کہتے ہیں کہ ٹیکنا لوجی نے فاصلے کم کئے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔یہ درست ہے کہ اس سے فاصلے کم ہوئے لوگ اپنے پیاروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سے لوگوں کے دلوں سے محبت کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے؟پہلے لوگ سالوں کے بعد ایک دوسرے سے ملتے لیکن ان کے دلوں مین محبت،خلوص اور چاہت ہوتی تھی۔لیکن آج کے دور میں آپ کسی سے روزانہ دو گھنٹے بھی فون پر بات کرتے ہوں لیکن اگر کبھی وہ غلطی سے کوئی نصحیت کر دے یا کوئی مذاق کر دے تو آپ سے برداشت نہیں ہوتا۔اور برداشت نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ آپ کے دل میں اس کے لیے محبت نہیں۔




لوگ اس کا الزام زمانے کو دیتے ہیں کہ زمانہ ایسا ہے۔زمانہ بہت برا آ گیا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ انسان زمانے کو برا بھلا کہتا ہے جبکہ میں زمانے کو بدلتا رہتا ہوں۔زمانے کو برا کہنا غلط ہے بلکہ اس کی وجہ ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کرنے کا طریقہ ہے۔جیسے پہلے عید آتی تھی تو ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو عید کارڈ اور گفٹ بھیجتے۔ تھے جب بھی آپ کسی کے لیے گفٹ لینے جاتے ہیں تو اس کی پسند اور ناپسند کو ذہن میں رکھتے ہیں۔لیکن آج کے دور میں آپ صرف ایک ایس-ایم -ایس کر دیتے ہیں۔جس پر ایک سیکنڈ(لمحہ) لگتا ہو گا۔ایسا لگتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال نے ہمارے دلوں سے پیار محبت اور خلوص کو ختم کر دیا ہے۔






ٹیکنالوجی کے بہت سے فائدے ہیں لیکن ہم اپنے پیاروں کو بھولتے جا رہے ہیں ہمیں انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران کوئی آواز دیتا ہے تو ہم اس کی سنی ان سنی کر دیتے ہیں ہم ہزاروں میل بیٹھے دوست کے زکام پر پریشان ہوجاتے ہیں۔ اپنے اہل و عیال کے احوال سے اکثر نابلد رہتے ہیں۔ لیکن سماجی روابط پر موجود دوستوں کی تمام ایکٹیویٹیز سے باخبر رہتے ہیں۔ ایک دوست کا فیس بک پر اسٹیٹس پڑھا جو کچھ یوں تھا کہ:


آج سارا دن بجلی نہ ہونے کہ وجہ سے سوشل نیٹ ورکس کو استعمال نہ کرپایا تو سوچا کہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ جاؤں۔ آج پتہ چلا، اچھے لوگ ہیں۔

ٹیکنالوجی کا استعمال بہت اچھی بات ہے خاص کر سوشل نیٹ ورکس نے تو سماجیات کے شعبے میں انقلاب برپا کردیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ورچوئل سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ اپنے آس پاس کے سماجی روابط اور رشتوں کو بھی مضبوط بنائیں۔




(مصنفہ: عدیبہ راجہ - قلم کاروان)


Read More

گناہوں کی دوا







حضرت شبلی نے ایک حکیم سے کہا’’مجھے گناہوں کا مرض ہے اگراس کی دوا بھی آپ کے پاس ہو تو عنایت کیجئے، یہاں یہ باتیں ہورہی تھیں اورسامنے میدان میں ایک شخص تنکے چننے میں مصروف تھا،اس نے سراٹھاکر کہا کہ جوتجھ سے لولگاتے ہیں وہ تنکے چنتے ہیں‘‘ شبلی! یہاں آؤ میں اس کی دوابتاتاہوں۔"




حیاکے پھول، صبروشکر کے پھل، عجز ونیاز کی جڑ، غم کی کونیل، سچائی کے درخت کے پتے، ادب کی چھال، حسن اخلاق کے بیج یہ سب اشیا لیکرریاضت کے باون دستہ میں کوٹنا شروع کرو اوراشک پشیمانی کاعرق ان میں روز ملاتے رہو۔ پھر ان سب کو دل کی دیگچی میں بھرکر شوق کے چولھے پرپکاؤ جب پک کرتیار ہوجائے توصفائے قلب کی صافی میں چھان کر شیریں زبان کی شکر ملاکرمحبت کی تیزآنچ دینا، جس وقت تیارہوکر اترے تو اس کو خوف خداکی ہوا سے ٹھنڈاکرکے استعمال کرنا‘‘



حضرت شبلی نے نگاہ اٹھاکر دیکھاتو وہ اللہ کا دیوانہ غائب ہوچکا تھا۔





( سچے موتی۸/۳۸۲)


Read More

ان پڑھ سقراط








میرے پاس ولایت اور یہاں کی بے شمار ڈگریاں ہیں ۔ لیکن اس سب علم اور ڈگریوں کے با وصف میرے پاس وہ کچھ نہیں ہے جو ایک پینڈو مالی کے پاس ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی عطا ہے ۔ بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے ، میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا ۔ وہاں ایک ڈونگی گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب رہا کرتے تھے ، میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھا اور مالی لوگ کچھ کام کر رہے تھے۔ ایک مالی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے ۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے ۔ وہ کہنے لگا کہ جی جو میرا چھوٹے سے بڑا بیٹا ہے وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے ۔ میں نے کہا ماشاء اللہ اس حساب سے تو ہم قریبی رشتے دار ہوئے ۔ وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں ۔ میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا اور ہم فیملی پلاننگ کے حوالے سے پروگرام کرتے تھے ۔ جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو مین نے کہا اللہ ان سب کو سلامت رکھے لیکن میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں ۔ وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا




” صاحب جی محبت کو تقسیم نہیں کیا کرتے ۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں ۔ “




وہ بلکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں ہے ۔




میں اکثر سوچتا ہوں کہ واقعی یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی کے پاس ہنر یا عقل کی ڈگری ہو ، یہ ضروری نہیں کہ سوچ و فکر کا ڈپلومہ حاصل کیا جائے ۔



(از: اشفاق احمد - اقتباس: زاویہ 2) 


Read More

Friday 25 October 2013

چل انشاء اپنے گاؤں میں






چل انشاء اپنے گاؤں میں
یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت

پر اصلی کم، بہرُوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا

جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت
چل انشاء اپنے گاؤں میں

بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟

یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا

یہاں مُفلس ہونا گالی ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں

بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
جہاں سچے رشتے یاریوں کے

جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سُکھ والے

جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل انشاء اپنے گاؤں میں

بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں





(ابن انشاء)


Read More

Thursday 24 October 2013

ہم کون ہیں؟








ہمارے متعلق ملک شام اور اس کے باغات سے پوچھو۔۔۔۔۔۔ عراق اور اس کے نخلستانوں سے پوچھو، مصر اور اس کی وادیوں سے پوچھو، الجزائر اور اس کے جنگلات سے پوچھو۔۔۔۔۔۔ افریقہ کے ریگستانوں اور ایران کے سبزہ زاروں سے پوچھو۔۔۔۔۔۔



پوچھو روس کی برفانی چوٹیوں سے۔۔۔۔۔۔ پوچھو فرانس کے دریاؤں سے۔۔۔۔۔۔ پوچھو یوگوسلاویہ اور رومانیہ کے پانیوں سے۔۔۔۔۔۔ بلکہ ربع مسکون کےہر ٹکڑے سے پوچھو۔۔۔۔۔۔! آسمان کے نیچے بسنے والی ہر مخلوق سے پوچھو۔۔۔۔۔۔



ان سب کے پاس ہماری شجاعت و بسالت، ایثار و قربانی، علوم و فنون اور عدالت و شرافت کی خبریں ہیں۔


!ہم مسلمان ہیں



ہمارے سوا اور کون تھا جس نے شرافت کے باغوں کو اپنے خون سے سینچا ہو۔ بتاؤ ہمارے علاوہ کس نے شجاعت و بسالت کے گلستان کو مزین کیا ہے۔ بھلا دنیا نے ہم سے زیادہ کوئی شریف، نبیل، مہربان اور شفیق، اعلٰی اور افضل کہیں دیکھا ہے؟ ہم نے جہالت کے اندھیروں میں ہدایت کی شمع روشن کرکے لوگوں کو بتایا کہ راہ ہدایت یہ ہے۔۔۔۔۔۔



وہ زمین ہماری ہی ہے جہاں قرآن پڑھا جاتا ہے اور میناورں سے اذان آتی ہے کہ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ کاش کہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں تو فتح و کامرانی اور جہاں بانی ہمارا مقدر بن جائے۔۔۔۔



(اقتباس: اسلامی تاریخ کے دلچسپ اور ایمان آفرین واقعات؛ از: ابو مسعود عبد الجبار) 


Read More

Tuesday 22 October 2013

ایسی تنہائی






ایسے اجاڑ سفر میں کون میرے دکھ بانٹنے کو میرے ساتھ چلے گا۔ یہاں تو ہوا کے سہمے ہوئے جھونکے بھی دبے پاؤں اترتے ہیں اور چپ چاپ گزر جاتے ہیں۔ یہاں کون میرے مجروح جذبوں پر دلاسوں کے پھائے رکھے، کس میں اتنا حوصلہ ہے کہ میری روداد سنے؟ کوئی نہیں۔

سوائے میری سخت جان "تنہائی" کے۔ تنہائی چونکہ میری خالی ہتھیلیوں پر قسمت کی لکیروں کی طرح ثبت ہے، میرے رت جگے کی غمگسار اور میری تھکن سے چور آنکھوں میں نیند کی طرح سما گئی ہے۔ ہوا مجھ سے برہم، سناٹا میرے تعاقب میں، مصیبتیں مجھ پر گریزاں اور شامیں میری آنکھیں پر اندھیرا باندھنے کے لیے منتظر اب کوئی چنگاری، کوئی کرن، کوئی آنسو یا پھر کوئی آس ہی مجھے دیرتک جینے کا حوصلہ دے سکتی ہے۔

(محسن نقوی کی کتاب "طلوع اشک" سے اقتباس)


Read More

Monday 21 October 2013

نوکیا کل ابو ظہبی میں چھ نئی ڈیوائسز متعارف کروائے گا














نوکیا کی جانب سے صارفین کے لئے چھ نئی ڈیوائسز کل 22 اکتوبر کو متعارف کروائی جارہی ہے۔ نوکیا ،کل ابو ظہبی میں نوکیا ورلڈ نامی ایک تقریب کا انعقاد کرنے جارہا ہے جس میں ان ڈیوائسز کی رونمائی کی جائے گی۔ مائیکروسافٹ اور نوکیا کے درمیان ہونے والی حالیہ اشتراک کے بعد نوکیا کی یہ تقریب خصوصی اہمیت کی حامل ہوگی۔ خیال کیا جارہا ہے کہ نوکیا کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر سٹیفن ایلوپ ، مائیکروسافٹ کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے اس تقریب کی میزبانی کریں گے۔




انٹرنیٹ پر جاری خبروں کے مطابق نوکیااس تقریب میں پہلی ونڈوز آر ٹی ٹیبلیٹ لومیا 2520 اور 6 انچ سکرین کا حامل نیا سمارٹ فون لومیا 1520 فیبلیٹ متعارف کروائےگا۔ ساتھ ہی ساتھ نوکیا دیگرچار نئے گیجٹس بھی متعارف کروائے گا۔ 




نئی ٹیکنالوجی، سمارٹ فون اور ٹبلیٹس کے حوالے سے خبریں لیک کرنے والے ایک مستند نام evleaks نے آج ٹویٹر پر Moroleaks حوالے سے آئی پوڈ شفل سے ملتی جلتی ایک میوزک ڈیوائس کی تصویر لیک کی ہے۔ اس ڈیوائس میں بلیوٹوتھ اور این ایف سی موجود ہے تاہم اس کے بارے میں مزید کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔







پاکستانی وقت کے مطابق کل دوپہر 12 بجے یہ تقریب ابو ظہبی میں شروع ہوگی۔ انٹرنیٹ پر یہ تقریب براہ راست conversations.nokia.com پر دیکھی جاسکتی ہے۔ نوکیا کی جانب سے جاری کی گئی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ شاید کمپنی عنقریب موبائل اور ٹیبلیٹس کے بعد لیپ ٹاپ بھی متعارف کروائے۔


Read More

Sunday 20 October 2013

بیت اللہ کی کشش






میں بارگاہِ خداوندی کے جاہ و جلال کے تصور سے لرزتا ہوا اندر داخل ہوا۔ صحن میں پاؤں رکھتے ہی خانہ کعبہ پر نظر پڑی اور مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ اس کی چھت آسمان کو چھو رہی ہے۔ سینکڑوں آدمی وہاں طواف کر رہے تھے۔ کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنا گوارا نہ تھا۔ جو طواف سے فارغ ہو چکے تھے، ان میں سے کوئی حطیم کے اندر نفل پڑھ رہا تھا اور کوئی غلافِ کعبہ تھام کر گریہ و زاری کر رہا تھا۔ کسی کو کسی سے سروکار نہ تھا۔ کسی کو کسی سے دلچسپی نہ تھی۔ دو تین چکر لگانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میں‌ کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری آواز بیٹھ گئی۔ میری قوت گویائی جواب دے گئی اور آنسوؤں کا سیلاب جو نہ جانے کب سے اس وقت کا منتظر تھا میری آنکھوں سے پھوٹ نکلا۔ یہ ایک ایسا مقام تھا جہاں بچے کی طرح سسکیاں لینا بھی مجھے معیوب معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کسی نے میری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں‌ کی، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ تم کیا کر رہے ہو، ان کی بے اعتنائی اور بے توجہی ظاہر کر رہی تھی کہ ایک انسان کے آنسو اسی مقام کے لیے ہیں.

( نسیم حجازی کے سفرنامے "پاکستان سے دیارِ حرم تک" سےاقتباس)


Read More

انسان - ایک عجیب مخلوق






انسان بڑی دلچسپ مخلوق ہے، یہ جانور کو مصیبت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا لیکن انسان کو مصیبت میں مبتلا کر کے خوش ہوتا ہے ۔

یہ پتھر کے بتوں تلے ریشم اور بانات کی چادریں بچھا کر ان کی پوجا کرتا ہے ۔ لیکن انسان کے دل کو ناخنوں سے کھروچ کے رستا ہوا خون چاٹتا ہے ۔

انسان اپنی کار کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کا ماتھا پونچھتا اور اس کے پہلو چمکاتا ہے اور میلے کچیلے آدمی کو دھکے دے کر اس لیے پرے گرا دیتا ہے کہ کہیں ہاتھ لگا کر وہ اس مشین کا ماتھا نہ دھندلا کر دے ۔

انسان پتھروں سے مشینوں سے جانوروں سے پیار کر سکتا ہے انسانوں سے نہیں ۔


(از اشفاق احمد)


Read More

Saturday 19 October 2013

بادشاہی مسجد، لاہور








ہندوستان کے چھٹے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی سرپرستی میں ان کے سوتیلے بھائی، مضفرحسین( جو فدائی خان کوکا کے نام سے مشہور ہوئے) نے یہ عظیم الشان مسجد بنوائی۔  مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی بادشاہ تھے۔ اس کی تعمیر ی کام کا آغاز1671ء میں شروع ہوا اور مسجد 1673ء میں مکمل ہوئی۔یہ مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ مسجد کا طرز ِ تعمیردلی کی جامع مسجد سے کافی ملتا جلتا ہے جسے اورنگزیب کے والد شاہجاں نے تعمیر کروایا تھا۔ بادشاہی مسجد ، فیصل مسجداسلام آباد کے بعد پاکستان کی دوسری اور جنوبی ایشیاء کی پانچویں بڑی مسجد ہے جس میں بیک وقت 60 ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کو تین سو تیرہ (313) سال تک دنیا کی سب سی بڑی مسجدہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ اس کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 54 میٹر ہے۔ میناروں کی اونچائی تاج محل کے میناروں سے بھی زیادہ ہے۔






بادشاہی مسجد کی ایک نایاب تصویر

 1799ء میں رنجیت سنگھ کی زیر قیادت سکھ افواج نے لاہور پر قبضہ کیا تو انہوں نے اس تاریخی مسجد کو شدید نقصان پہنچایا۔ مسجد کا صحن سکھ سپاہیوں کے اصطبل اور اس کے صحن کے گرد بنے ہوئے حجرے سپاہیوں کی قیام گاہ اور اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہونے لگے اور مسجد اور شاہی قلعے کے درمیان واقع حضوری باغ رنجیت سنگھ کے دربار کے طور پر سجنے لگا۔ صرف یہیں پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ رنجیت سنگھ کے بعد سکھوں میں پڑنے والی پھوٹ اور خانہ جنگی میں مسجد کے مینار تک گولہ باری کے لیے استعمال ہوئے، جس سے قلعے اور مسجد کو سخت نقصان پہنچا۔







جب انگریزوں نے سکھوں سے پنجاب حاصل کیا تو امید تھی کہ مسجد کی حالت کچھ بہتر ہوگی لیکن انہوں نے مسجد کو بد سے بدترین حالت تک پہنچا دیا۔ انگریزوں نے نہ صرف یہ کہ قلعے کا بحیثیت چھاؤنی استعمال جاری رکھا بلکہ بادشاہی مسجد کے صحن کے گرد واقعے تمام حجرے اور مینار کے بالائی حصے ڈھا دیے تاکہ مسجد کا دوبارہ کسی عسکری مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے اور اسے اصطبل اور اسلحہ خانے کی حیثیت سے استعمال کیا۔ اس فعل پر مسلمانوں میں پائے جانے والے جذبات کے باعث بالآخر انگریزوں نے طویل عرصے کے بعد اسے مسلمانوں کے حوالے کیا، لیکن اس کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھانا نہ مسلمانوں کے بس کی بات تھی اور نہ انگریز سرکار کو اس سے کچھ دلچسپی تھی۔ کچھ نیم دلانہ کوششیں ضرور ہوئیں لیکن اتنی بڑی مسجد کو اپنے عظیم نقصان کے بعد پرانی شان و شوکت کے ساتھ بحال کرنا ایک بہت بڑے منصوبے کا متقاضی تھا۔







قیام پاکستان کے بعد 1960ء میں حکومت پاکستان نے اس تاریخی مسجد کی اصل شکل میں بحالی کے لیے ایک منصوبے کا آغاز کیا اور بالآخر لاکھوں روپے کی لاگت سے مسجد کو اس کی اصلی شکل میں بحال کردیا گیا۔ میناروں کے بالائی حصے اور صحن کے گرد تمام حجرے اپنی اصلی شکل و صورت میں تعمیر کیے گئے۔ آج مسجد ہر سال لاکھوں سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے اور لاہور میں سب سے زيادہ دیکھے جانے والے مقامات میں شامل ہے۔










Read More

ماں








ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میں‌ایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماں‌نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں ‌آگیا ہوں۔





میں‌ نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوں‌ہو رہی ہے؟‌ اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں‌ نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوں‌کڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں‌ پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔




میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماں‌کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے، جو خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال دیتی ہے۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچھ بھی ایسا نہیں تھا، لیکن وہ ایک ماں تھی۔




(زاویہ دوم، باب پنجم۔ از: اشفاق احمد)



Read More

Friday 18 October 2013

ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک








ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک کوئٹہ سے 20کلو میٹر دور جنوب مغرب میں واقع ایک انتہائی خوبصورت پارک ہے۔ اسکا رقبہ 32,500ایکڑ ہے۔ یہ پارک سطح سمندر سے 2021 سے 3264 میٹر بلندی پر واقع ہے ۔ اسے 1980ء میں جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے قائم کیا گیا۔یہ پارک قدرتی پہاڑی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں مغرب میں چلتن اور مشرق میں ہزار گنجی پہاڑی سلسلہ ہے۔چلتن کا شمار بلوچستان کے سب سے اونچی چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس پارک میں ایک بہترین عجائب گھر دیکھنے کے لائق ہے۔ یہاں آرام گاہ (ریسٹ ہاؤس) بھی ہے اور تفریح کیلئے خوبصورت مقامات بھی، جس کے باعث باہر سے سیر کیلئے آنے والے یہاں رہتے ہوئے اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔







ہزار گنجی نیشنل پارک میں پائے جانے والے جنگلی حیات







ہزار گنجی کا مطلب ہزار خزانوں والی جگہ ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں پہاڑوں کی تہوں میں ہزاروں خزانے دفن ہیں، اس تاثر کی وجہ اسکا مخلتلف تاریخی افواج اور بلوچ قبائل کی گزرگاہ ہونا ہے۔ابتدا میں اس پارک کے قیام کا مقصد چلتن جنگلی بکری اورمارخور کی نسل کو بچانا تھا جو 1950ء کی تعداد 1200 سے کم ہو کر 1970ء میں صرف 200 رہ گئے تھے۔ اب ان کی تعداد دوبارہ 800 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اب یہاں سلیمان مارخور بھی محفوظ ہیں اور دھاری دار چیتا اور لومڑیاں بھی ہیں۔ پارک کے قیام سے یہ جانور غیر قانونی شکاری کاروائیوں سے بچے ہوئے ہیں۔انکے علاوہ کئی اور نایاب جانور ور پرندے بھی یہاں موجود ہیں۔



(ویکیپیڈیا)





Read More

Thursday 17 October 2013

تعلق کیا چیز ہے؟







یہ بھی حسیات سے تعلق رکھنے والی غیر مرئی خوبیوں میں سے ایک کیفیت ہے، جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن سمجھنے پر آئیں تو سمجھ نہیں سکتے۔ ماں کی محبت کے تعلق کو مامتا کہہ کر واضع نہیں کر سکتے۔ ڈکشنری میں یا لٹریچر سے اس کی وضاحتیں ملتی ہیں، مامتا نہیں ملتی۔ جہاد پر جان سے گزر جانے والے بہادر کے جذبے کو اس وقت تک سمجھا نہیں جا سکتا، جب تک آپ خود ایسی بہادری کا حصہ نہ بن جائیں۔ تعلق، زندگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے صبر کی مانند ایک ڈھال ہے۔ جب کبھی جہاں بھی سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، وہاں قناعت، راحت اور وسعت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ کو اندر ہی اندر یہ یقین محکم رہتا ہے کہ "آپ کی آگ" میں سلگنے والا کوئی دوسرا بھی موجود ہے، دہرا وزن آدھا رہ جاتا ہے۔


 


(بانو قدسیہ کے ناول "حاصل گھاٹ"  سے اقتباس)








Read More

خلیفہ ہارون الرشید کا استفسار اور بہلول کا انوکھا جواب













ایک دن بہلول بازار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ خلیفہ ہارون الرشید کا گزر ہوا تو انہوں نے پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو تو بہلول نے کہا کہ بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں۔




ہارون الرشید نے کہا کہ پھر کیا بنا؟




بہلول نے کہا کہ اللہ تو مان رہا ہے لیکن بندے نہیں مان رہے۔



کچھ دن بعد خلیفہ کا ایک قبرستان کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا بہلول قبرستان میں بیٹھے ہیں۔

قریب جا کر پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو۔




بہلول نے کہا بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں۔




ہارون الرشید نے کہا کہ پھر کیا بنا؟




بہلول نے کہا بندے تو مان رہے ہیں مگر آج اللہ نہیں مان رہا ہے۔






دوستوں! اس بارے میں ضرور سوچو، کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور اللہ کو منانے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے۔ اب بھی وقت ہے اپنا آپ پہچانو اپنے رب کے پیغام کو جانو۔



Read More

مائیکرو سافٹ نے ونڈوز کا نیا ورژن ریلیز کر دیا







مائکروسافٹ نے آج اپنے مشہور زمانہ آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کا نیا ورژن لانچ کر دیا ہے۔ ونڈوز 8 استعمال کرنے والے صارفین، ونڈوز8.1 کے نام سے جاری اس ورژن کو مائیکروسافٹ کی ویب سائٹ سے بلکل مفت ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ اس نئی اپڈیٹ میں پچھلے ورژن کی خامیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ نئے فیچرز بھی شامل کئے گئے ہیں۔



ونڈوز 8 کی ریلیز پر ماہرین نے اس کے یوزرانٹرفیس اور مشہور زمانہ "اسٹارٹ بٹن" کی غیر موجودگی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ونڈوز 8.1 میں "اسٹارٹ بٹن" کو ایک نئے انداز میں دوبارہ شامل کر دیا گیا ہے۔ ونڈوز کے اس نئے ورژن کا انٹرفیس ونڈوز 8 سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اس ورژن میں انٹرنیٹ ایکسپلورر11، بِنگ سرچ، سکائی ڈرائیو کنیکٹیویٹی اور سکائپ جیسے نئے فیچرز شامل کئے گئے ہیں۔



ونڈوز 8 استعمال کرنے والے صارفین کو نیا ورژن خریدنے کی ضرورت نہیں اور وہ اسے ونڈوز ایپ اسٹور سے بلکل مفت ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔ دیگر صارفین کے لئے اس کی قیمت 200 ڈالر مقرر کی گئی ہے۔



مائیکروسافٹ پہلے ہی یہ ورژن ہارڈوئیر شراکت داروں کو بھیج چکا ہے تاکہ وہ نئے کمپیوڑز، لیپ ٹاپس اور ٹیبلیٹس پر اسے انسٹال کر سکیں۔ نئے ورژن کی لانچنگ کے ساتھ ہی ونڈوز 8.1 کے حامل کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور ٹیبلیٹس مارکیٹ میں لانچ کردئے گئے ہیں۔





ونڈوز 8.1 کے بارے میں مزید جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔ 





Read More

ایک باز اور مرغ کا مکالمہ








ایک جگہ پہ ایک باز اور ایک مرغ اکٹھے بیٹھے تھے۔ باز مرغ سے کہنے لگا کہ میں نے تیرے جیسا بے وفا پرندہ نہیں دیکھا۔ تو ایک انڈے میں بند تھا۔ تیرے مالک نے اس وقت سے تیری حفاظت اور خاطر خدمت کی، تجھے زمانے کے سرد و گرم سے بچایا۔ جب تو چوزہ تھا تو تجھے اپنے ہاتھوں سے دانہ کھلایا اور اب تو اسی مالک سے بھاگا پھرتا ہے۔

مجھے دیکھ، میں آزاد پرندہ تھا، میرے مالک نے مجھے پکڑا تو سخت قیدو بند میں بھوکا پیاسا رہا، مالک نے بہت سختیاں کیں لیکن جب بھی مالک شکار کے پیچھے چھوڑتا ہے تو شکار کو پکڑ کر اسی مالک کے پاس ہی لاتا ہوں۔

مرغ کہنے لگا۔ "تیرا اندازِ بیان شاندار ہے اور تیری دلیل میں بہت وزنی لگتی ہے، لیکن اگر تو دو باز بھی سیخ پہ ٹنگے ہوئے دیکھ لے تو تیری دلیل دھری کی دھری رہ جائے اور کبھی لوٹ کر مالک کے پاس واپس نہ آئے۔"


Read More

حکایتِ سعدی







شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں مجھے عبادت کا بہت شوق تھا۔ میں اپنے والد محترم کے ساتھ ساری ساری رات جاگ کر قرآن مجید کی تلاوت اور نماز میں مشغول رہتا تھا۔ ایک رات والدِمحترم اور میں حسبِ معمول عبادت میں مشغول تھے اور ہمارے قریب ہی کچھ لوگ فرش پر پڑے غافل سورہے تھے۔ میں نے اُن کی یہ حالت دیکھی تو اپنے والد صاحب سے کہا کہ ان لوگوں کی حالت پر افسوس ہے! ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اٹھ کر تہجد کی نفلیں ہی ادا کرلیتے۔



والد محترم نے میری یہ بات سنی تو فرمایا: بیٹا! دوسروں کو کم درجہ خیال کرنے اور برائی کرنے سے تو بہتر تھا کہ تو بھی پڑکر سوجاتا۔



(حکایاتِ گلاستانِ سعدی)


Read More

Tuesday 15 October 2013

قربانی کی اہمیت







سنت ابراہیمی کا دن قریب آ رہاہے جو ہمارے اخلاص و ایثار کا امتحان ہے۔ یہ دن عید الضحیٰ کہلاتا ہے جو حضرت ابرہیم خلیل اللہ کی جانب سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتی ہے۔قربانی کا تصور ہر آسمانی مذہب میں پایا جاتا ہے۔ جذبہ ایثار کا یہ ایک بہترین محرک ہے۔ اس کی ابتدا قابیل کے واقعہ سے ہوتی ہے، لیکن جس کی یاد گار کو ہم مناتے ہیں اس کا اجرا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا تھا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ نے عرض کی! ہمیں اس میں کیا ملے گا۔ فرمایا جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ۔



حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا قربانی کے دن اﷲ کے ہاں خون بہانے سے کوئی عمل زیادہ محبوب نہیں۔ قربانی کے جانور کے سینگ ‘ بال کھر قیامت کے روز سب اجر وثواب بن جائیں گے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں بلند درجہ پا لیتا ہے۔ لہذا ایسی قربانیوں سے اپنے دل خوش کرو۔



قربانی کا گوشت تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے اور حسب ضرورت رکھا بھی جا سکتا ہے۔ کوئی پابندی نہیں۔ شریعت کی رو سے قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاتے ہیں۔ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا رشتہ داروں اور تیسرا حصہ مساکین کیلئے مختص کیا جاتا ہے۔ اسی قربانی کی یہ حکمت وبرکت ہے کہ غریب سے غریب شخص بھی ان دنوں گوشت سے محروم نہیں رہتے۔



قربانی کا گوشت تقسیم ہو یا نہ ہو استعمال میں آئے یا نہ آئے اس سے قربانی کی اہمیت کسی صورت بھی کم نہیں ہوتی ۔قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ’’اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقوی پہنچتا ہے-" (سورۃ الحج آیت نمبر 37)



آخر میں قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ایک ارشاد مبارک بھی پڑھ لیجئے- ارشاد نبوی ﷺ ہے:



’’جو شخص قربانی کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے وہ (نماز عید کے لئے) ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے"۔ (مسند احمد)



قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، اس لئے اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے اور اس سلسلہ میں جن شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے، انہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔


Read More

Monday 14 October 2013

طبیب کی نصیحتیں







حجاج بن یوسف نے اپنے دور کے مشہور طبیب سے فرمائش کی کہ اسے طب کی کچھ اچھی اچھی باتیں بتائے۔



اُس مشہور طبیب نے کہا:




  1. گوشت صرف جوان جانور کا کھاؤ۔

  2. جب دوپہر کا کھانا کھاؤ تو تھوڑا ٹائم سو جاؤ اور شام کا کھانا کھا کر چلو، چاہیے تمہیں کانٹوں پر چلنا پڑے۔

  3. جب تک پیٹ کی پہلی غذا ہضم نہ کر لو دوسرا کھانا نہ کھاؤ، بھلے تمہیں تین دن ہی کیوں نہ لگ جائیں۔

  4. جب تک بیت الخلاء نہ جاؤ، سونے کے لئے مت لیٹو۔

  5. پھلوں کے نئے موسم میں پھل کھاؤ، جب موسم جانے لگے تو پھل کھانا چھوڑ دو۔

  6. کھانا کھا کر پانی پینے سے بہتر ہے کہ زہر پی لو یا پھر کھانا ہی نا کھاؤ۔



Read More

Sunday 13 October 2013

کیا آئرن مین حقیقت کا روپ دھارنے والا ہے؟







امریکی فوج نے سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں، حکومتی لیبارٹریوں اور سائنس دانوں سے رابطہ کیا ہے تاکہ مشہور زمانہ فلم "آئرن مین" کی طرز پر لباس تیار کیا جا سکے۔ امریکی فوج پہلے ہی ایسے ایگزو سکیلیٹنز کے ٹیسٹ کر چکی ہے، جسے استعمال کرنے سے فوجی باآسانی زیادہ وزن لاد کر حرکت کر سکیں گے۔







امریکی ادارے لاک ہیڈ مارٹن کا تیار کردہ ایگزو سکیلیٹن تجربات کے مراحل میں


ٹیکٹیکل اسالٹ لائٹ آپریٹر سوٹ (ٹیلوس) نامی اس لباس میں ایسے سنسرز نصب کئے جائیں گےجس کی مدد سے فوجیوں کے جسمانی درجۂ حرارت، دل کی دھڑکن اور ہائیڈریشن کی سطح باآسانی معلوم کی جاسکے گی۔ "آئرن مین" سیریز کی فلموں میں دکھائے گئے لباس کے مانند ٹیلوس میں بھی وسیع رینج کے نیٹ ورکس اور گوگل گلاس کی مانند پہنے جانے والے کمپیوٹر لگے ہوں گے۔ ہاتھ اور ٹانگوں کے ساتھ لگائے جانے والے ایگزو سکیلیٹنز میں ہائیڈرولک سسٹم بھی موجود ہو گا تاکہ فوجیوں کو مزید قوت مل سکے۔






امریکی فوج کے ریسرچ اور انجینئرنگ کمانڈ کے لیے سائنسی مشیر لیفٹیننٹ کرنل کارل بورجیز کا کہنا ہےکہ ہماری خواہش ہے کہ یہ آرمر سوٹ ایگزو سکیلیٹن، صحت اور توانائی کی مسلسل نگرانی اور ہتھیاروں پر مشتمل ایک جامع سسٹم پر مشتمل ہو۔ ان کے مطابق یہ ایک جدید بکتربند سوٹ ہو گا، اس میں کمیونیکیشن، سینسرز، سرکٹس اور انٹینے نصب ہوں گے۔ امریکی فوج کے سارجنٹ میجر کرس فیرس کا کہنا ہے کہ ایسے جدید بکتر بند لباس کی تیاری اکیلے کسی ایک دارے کے بس کی بات نہیں۔ اسی لیے ہم نے ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ اداروں، نجی سائنسی اداروں اور حکومتی لیبارٹریوں سے اس منصوبے میں مدد کی درخواست کی ہے۔ امریکی فوج چاہتی ہے کہ ٹیلوس آرمر سوٹ کو تین سال کے اندر اندر تیار کر لیا جائے۔




امریکی فوج کے مطابق، یہ عین ممکن ہے کہ میسی چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنس دان بھی اس منصوبے پر کام کریں۔ ایم آئی ٹی کی ایک ٹیم ان دنوں ایسے مائع جسمانی بکتر بند کی تیاریوں میں مصروف ہے، جسے برقی یا مقناطیسی کرنٹ دینے پر ٹھوس شکل دی جا سکے گی۔




امریکا کی نیوز ویب سائٹ این پی آر سے ایک انٹرویو میں ایم آئی ٹی کے پروفیسر گیرتھ مک کینلی نے مستقبل کے آرمر لباس کا موازنہ ہالی وڈ کی فلموں میں دکھائے جانے والے لباسوں سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بالکل آئرن مین جیسے لباس ہوں گے۔


Read More

کیا ڈیجیٹل دماغ تیار ہوسکے گا؟







یورپی یونین نے ایک ارب پونڈ کی لاگت سے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے تاکہ انسانی دماغ کو مکمل طور پر سمجھا جا سکے۔ ہیومن برین پراجیکٹ (ایچ بی پی) نامی منصوبے میں یورپی ممالک کے 135 سائنسی اداروں میں کام کرنے والے سائنسدان حصہ لے رہے ہیں۔ 





برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس منصوبے میں سائنسدان ایسی کمپیوٹر سمولیشن تیار کرنے کی کوشش کریں گے جس سے انسانی دماغ کو مکمل طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔



سائنسدانوں کے مطابق انسانی دماغ ایک ارب سے زیادہ نیوران اور سو کھرب سے زیادہ لونیا جوڑوں پر مشتمل ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے پروفیسر ہنری مارکرم کے مطابق اس منصوبے کا مقصد انسانی دماغ کے بارے میں تمام معلومات کو اکھٹا کر کے ایسی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا قیام ہے جس کے تحت دماغ کے بارے سمولیشن بن سکیں۔ انہوں نے کہا اس پراجیکٹ کے مقاصد میں یہ بھی شامہ ہے کہ دماغی بیماریوں کا کیسا پتا چلا جائے اور انسانی ذہن کو سمجھ کر کیسے ایک نیا ڈیجیٹل دماغ تیار کیا جائے؟



سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ موجودہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی انسانی ذہن کے پیچیدہ گوشوں کی مکمل سمولیشن تیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔ انسانی ذہن کو سمجھنے کے اس منصوبے کا انسانی جینوم پراجیکٹ کے ساتھ موازانہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عشرے تک جاری رہنے والے انسانی جینوم پراجیکٹ میں ہزاروں سائنسدانوں نے حصہ لیا تھا اور اس منصوبے میں انسانی جینیٹک کوڈ کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس منصوبے پر اربوں ڈالر کے اخراجات آئے تھے۔



سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کے بعد سائنسدان انسانی دماغ اور ڈیجیٹل دماغ کا موازانہ کر کے انسانی دماغ کی بیماریوں کا پتہ چلایا جا سکے گا۔


Read More

بکرے کا انتخاب











ایک صاحب نے کئی گھنٹے کی کوشش کے بعد ایک بکرا منتخب کیا اور اس دوران بکرے کی نسل، شکل و صورت، خاندان اور ماضی اور مستقبل کے بارے میں اتنے سوال کئے جو عام طور پر لوگ ہونے والے داماد کے بارے میں بھی نہیں پوچھتے۔ 





بکرے والا اُن کے ہر سوال کا جواب دیتا رہا لیکن تمام انکوائری کے بعد جب خریدار نے یہ کہا:





"اور تو میاں سب ٹھیک ہے مگر اس کے سینگ چھوٹے ہیں"۔


تو بکرے والے سے رہا نہ گیا۔ اس نے جل کر کہا۔ 





"معاف کیجئے گا۔ آپ نے اس کی قربانی کرنی ہے یا اس پر کپڑے لٹکانے ہیں"۔


(امجد اسلام امجد کی چشم تماشا سے اقتباس) 


 


Read More

Saturday 12 October 2013

اکبر بادشاہ







آپ نے حضرت ملا دو پیازہ اور بیربل کے ملفوظات میں اس بادشاہ کا حال پڑھا ہو گا، راجپوت مصوری کے شاہکاروں میں اس کی تصویر بھی دیکھی ہوگی، ان تحریروں اور تصویروں سے یہ گمان ہوتا ہے، کہ بادشاہ سارا وقت داڑھی گھٹوانے، مونچھیں تراشوائے، اکڑوں بیٹھا پھول سونگھتا رہتا تھا یا لطیفے سنتا رہتا تھا، یہ بات نہیں اور کام بھی کرتا تھا۔











اکبر قسمت کا دھنی تھا، چھوٹا سا تھا کہ باپ بادشاہ ستارے دیکھنے کے شوق میں کوٹھے سے گر کر جاں بحق ہو گیا اور تاج و تخت اسے مل گیا۔



ایڈورڈ ہفتم کی طرح چونسٹھ برس ولی عہدی میں نہیں گزارنے پڑے۔ ویسے اس زمانے میں اتنی لمبی ولی عہدی کا رواج بھی نہ تھا، ولی عہد لوگ جونہی باپ کی عمر کو معقول حد سے تجاوز کرتا دیکھتے تھے اسے قتل کرکے، یا زیادہ رحم دل ہوتے تو قید کرکے، تخت حکومت پر جلوہ افروز ہو جایا کرتے تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ دن رعایا کی خدمت کا حق ادا کر سکیں۔



(اقتباس: ابنِ انشاء کے مضامین)


Read More

Friday 11 October 2013

سورۃ یٰسین کے فوائد








حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۃ یٰسین ہے"۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے مجربات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:"تم یٰسین کو لازم کرلو، اس میں بے شمار فوائد ہیں"۔





اس سورۃ کے چند فوائد درج ذیل ہیں:







  • اگر کوئی بھوکا آدمی اسے پڑھے تو اس کی طبیعت سیر ہوجائے گی۔

  • اگر پیاسا آدمی پڑھے تو اس کی پیاس بجھ جائے گی۔

  • اگر لباس نہیں تو پڑھنے سے لباس میسر آجائے گا۔

  • اگر غیر شادی شدہ مرد یا عورت پڑھے تو اس کی شادی ہوجائے گی۔

  • اگر خوف زدہ پڑھے تو اس کا خوف ختم ہوجائے گا۔

  • اگر قیدی اس کو پڑھا کرے تو رہائی پائے گا۔

  • اگر مسافر پڑھے تو سفر میں اس کی اعانت ہوگی۔

  • اگر غم یا وہم والا پڑھے تو وہ شفا پائے گا۔

  • اگر گم شدہ آدمی یا چیز کی واپسی کے لیے پڑھیں تو دستیاب ہوگی۔

  • اگر بیمار کے لیے پڑھے تو مریض صحت یاب ہوجائےگا۔



(ماخوذ از مجربات امام سیوطی رحمہ اللہ)


Read More

اب کھانے "پرنٹ" کئے جائیں گے










امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ایک ایسے 3D پرنٹر کی تیاری پر کام شروع کیا ہے جو ہمارے لئے کھانا "پرنٹ" کر سکے۔ ناسا کا خیال ہے کہ مستقبل میں خلائی اسٹیشن پر خوارک عام گھریلو طریقے سے پکانے کے بجائے خصوصی 3D پرنٹر کی مدد سے پرنٹر کئے جائیں جو ذائقے اور معیار میں کسی بھی طرح گھریلو کھانے سے کم نہ ہو۔ اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ایک 3D پرنٹر کی مدد سے پیزا کی تیاری کا عمل دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں پیزا کو تیاری کے بعد ایک گرم سطح پر پکتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔





اگرچہ اس پیزا کا معیار فی الحال اچھا نہیں ہے لیکن اس کامیابی کو ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم سنگ میل تصور کیا جارہاہے۔ پرنٹر ابھی اپنی تیاری کے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ماہرین کے خیال میں وہ بہت جلد اسے مزید بہتر بناسکیں گے۔ اگر یہ پرنٹرز مارکیٹ میں آگئے تو آپ کسی بھی وقت بھیڑ کی بھنی ہوئی "پرنٹڈ" ران اور "پرنٹڈ" تکے، آلو کے "پرنٹڈ" قتلوں اور مزیدار "پرنٹڈ" چھٹنی کےساتھ تناول کرسکیں گے۔


Read More

Thursday 10 October 2013

آنسوؤں سے کینوس پر رنگ بکھیرے والا مصور







ارجنٹائن میں ایک مصور نے آنکھوں سے کینوس پر
رنگ بکھیرنا شروع کردئیے۔ لیونارڈو گرانٹو نامی مصور اپنی ناک کے ذریعے آنکھوں میں
رنگ ڈال کر انہیں آنسوؤں کی شکل میں کینوس پر بکھیرتا ہے۔










 آنکھ سے نکلے ہوئے آنسو
کینوس پر گرتے ہیں تو مصور کے احساسات رنگوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ لیونارڈو کا کہنا
ہے کہ وہ ایک خاص طریقے سے ناک کے ذریعے رنگ آنکھوں تک پہنچاتا ہے جسے آنسوؤں کی
لڑی کی شکل میں کینوس پر بکھیرتا ہے۔










 لیونارڈو کے مطابق وہ ایک وقت میں آٹھ سو ملی
لیٹر تک رنگ اپنی آنکھوں کے ذریعے کینوس پر گراسکتا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ جو رنگ
استعمال کرتا ہے وہ انکھوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتا۔ لیونارڈو خریدار کو پینٹنگ
کے ساتھ ایک وڈیو فلم بھی دیتا ہے جس میں پینٹنگ کے سارے عمل کو دکھایا جاتا ہے۔
اکثر خریدار ویڈیو دیکھ کر خود بھی اپنی آنکھوں سے آنسو رواں دیکھتے ہیں۔ 







Read More

غذائیت سے بھرپور صحت بخش سیاہ ٹماٹر








برطانوی شہری نے سیاہ رنگ کےانوکھے ٹماٹر اگالیے۔ یہ ٹماٹر مکمل طور پر سیاہ رنگ کے ہیں لیکن اندر سے سرخ ہیں۔  ٹماٹر میں ایسے anthocyanins اور antioxidant  اجزاء شامل ہیں جو صحت کے لئے انتہائی مفید سمجھے جاتے ہیں۔ برطانیہ کے شہر نیو ٹاؤن کے رہائشی 66 سالہ نرسری مالک رے براؤن نے مکمل سیاہ رنگ کے  ٹماٹر اگالئے  جو نہ صرف غذائیت سے بھرپور ہیں بلکہ اس میں شامل اجزاء کینسراور ذیابیطس سے بچاؤ میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ رے براؤن نے کہا:


"ہم ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے سیاہ ٹماٹر اگانے کی کوشش کی لیکن وہ اسے حاصل نہیں کرسکے۔ انہیں صرف بھورے یانارنجی ٹماٹر اگانے میں کامیابی ملی۔ لوگوں نے ہمیشہ یہی سوچا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔"


 لوگوں کے استفسار کے بارے میں رے براؤن نے کہا:


"کوئی اس بات پر یقین نہیں کر رہا تھا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں۔ وہ اسے مزاق سمجھ رہے تھے۔ لوگ یہاں تک شش وپنج میں مبتلا تھے کہ آیا یہ ٹماٹر کھانے کے لائق بھی ہیں یا نہیں۔ ہم نے بہت سے کھائے ہیں۔ یہ خوش ذائقہ ہیں۔"







  سیاہ رنگ کے اس ٹماٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکا کے Oregon  اسٹیٹ یونیورسٹی کے 'اینڈیگو روز' پروجیکٹ کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ پھلوں میں پائے جانے والےاجراء Anthocyanins کینسر، ذیابیطس اور موٹاپا روکنے میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔





Read More

قلم کی دھار








یہ درست ہے کہ قلم کی دھار نہایت ہی تیز اور پُر اثر ہوتی ہے۔ کوئی بھی دوسری دھار اس پر غالب نہیں آسکتی۔ یا یوں کہہ لیں کہ چاقو کی دھار، تلوار کی دھار یا زبان کی دھار، سب قلم کی دھار کی پیدا کردہ دھاریں ہیں۔ قلم کی دھار نے ہر جگہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہت سی پست، محکوم اور زوال پزیرقومیں اسکی بدولت بامِ عروج پر پہنچی۔ 





قلم نے بہت سے واقعات قید کرکے آئندہ نسلوں کو تاریخ کی شکل میں پیش کئے۔ خوبصورت الفاظ کو موتیوں کی طرح پرو کر ایک لڑی کی شکل میں ڈھال کر شاعری کا لباس پہنایا۔ اگر اس کا استعمال صحیح اور بغیر کسی مفاد کے کیا جائے تو حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ 





آج ہم جو کچھ جانتے ہیں، سب قلم کا مرہونِ منت ہے۔ قلم کی زبان دلوں میں جذبہ، ولولہ اور حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔ حق و باطل کے معرکوں سے شناسائی ہمیں قلم ہی نے بخشی ہے۔ ظالم و مظلوم کی صداہمیں قلم نے ہی پہنچائی ہے۔ اگر اہلِ قلم حقیقت پسند ہوں تو ہمیشہ حقیقت ہی سامنے آتی ہے اور جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔





پس! یہ قلم ہی ہے کہ جس کے ذریعے ہم تمام عالم میں ایک خاص اور جداگانہ حیثیت حاصل کر سکتے ہیں۔


Read More

جھوٹ
















اپنی
روزمرہ زندگی سے جھوٹ کو ایسے نکالو اور اتنی کوشش سے نکالو کہ جیسے تم
کائنات سے شیطان کو نکال رہے ہو۔ آپ جھوٹ کو مکمل طور پر چھوڑ دو۔ چھوٹے
چھوٹے جھوٹ بھی چھوڑ دو تاکہ تمہاری زندگی میں سچ داخل ہو جائے اور جب سچ
داخل ہوجائے گا تو زندگی خودبخود سچ میں ڈھل جائے گی۔ اگر حق بیان کرنا پڑے
تو آپ کو صداقت کے بیان میں تذبذب نہ آئے۔ صداقت کا مطلب ہے کہ جھوٹ کو
برملا جھوٹ کہو اور سچ کو برملا سچ کہواور نہ سمجھ آنے والی بات کو بر ملا
نہ سمجھنے والی بات کہو۔ تذبذب میں نہ پڑنا، ورنہ یہ تلوار کی دھار ثابت
ہوگا اور آپ کو گرادےگا، اس طرح آپ کا سفر نہیں ہوگا۔






(واصف علی واصف، گفتگو

(


Read More

Wednesday 9 October 2013

انوکھا انصاف







ایک رات قصر شاہی میں ایک دعوت ہوئی۔ اس موقع پر ایک آدمی آیا اور اپنے آپ کو شہزادے کے حضور میں پیش کیا۔ تمام مہمان اس کی طرف دیکھنے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس کی ایک آنکھ باہر نکل آئی ہے اور خالی جگہ سے خون بہہ رہا ہے۔ شہزادے نے اس سے پوچھا "کہ تم پر کیا واردات گزری؟"



اس نے جواب دیا "عالی جاہ میں ایک پیشہ ور چور ہوں اور آج شپ جب کہ چاند ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ میں ساہوکار کی دوکان لوٹنے کے لئے گیا لیکن غلطی سے جلاہے کے گھر میں داخل ہوگیا۔ جوں ہی میں کھڑکی سے کودا میرا سر جلاہے کے کرگھے کے ساتھ ٹکرایا۔ اور میری آنکھ پھوٹ گئی۔ اے شہزادے اب میں اس جلاہے کے معلاملے میں انصاف چاہتاہوں ۔ ۔ ۔"



یہ سن کر شہزادے نے جلاہے کو طلب کیا۔ اور یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کی ایک آنکھ نکال دی جائے۔ جلاہا بولا "ظل سبحانی آپ کا فیصلہ درست ہے کہ میری ایک آنکھ نکالی جانی چاہئے۔ لیکن میرے کام میں دونوں آنکھوں کی ضرورت ہے تاکہ میں اس سے کپڑے کی دونوں اطراف دیکھ سکوں جسے میں بنتا ہوں ۔۔۔ میرے پڑوس میں ایک موچی ہے جس کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں اس کے پیشے میں ان دونوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔"



یہ سن کر شہزادے نے موچی کو طلب کیا وہ آیا اور اس کی دو آنکھوں میں سے ایک آنکھ نکال دی گئی۔



اس طرح انصاف کا تقاضا پورا ہوگیا۔





(کلیاتِ خلیل جبران سے اقتباس)


Read More

تھری جی ٹیکنالوجی







گزشتہ کچھ عرصہ سے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں تھری جی یعنی تھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی کا بڑا چرچا ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بھی یہ نظام بہت جلد آرہا ہے۔ لیکن تھری جی نظام حقیقت میں ہے کیا؟ اس بارے میں بہت کم لوگ معلومات رکھتے ہیں۔



مستقبل میں دنیا میں ہونے والی معاشی و معاشرتی تبدیلیوں میں ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کریگی۔ آج دنیا گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے جو بلاشبہ انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا کوئی بھی شخص آپ سے صرف ایک بٹن کی دوری پر ہے۔ ٹیبل فون،موبائل فون، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کا معیار بدل کر رکھ دیا ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن سروسز کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں جدت لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ انٹرنیٹ، موبائل اور پھر موبائل پر انٹرنیٹ کے استعمال نے دنیا کو ایک کھلی کتاب کی مانند بدل دیا ہے، لیکن موبائل پر انٹرنیٹ کی کم رفتار اور ویڈیو کانفرنسز جیسی سہولیات کی عدم دستیابی اس تیز رفتار ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس خامی پر قابو پانے کے لئے آئی ٹی ماہرین نے سر جوڑا اور ون جی اور ٹو جی کے بعد اب تھری جی جیسی نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی۔



اس وقت دنیا میں تھری جی سب سے جدید ٹیکنالوجی ہے۔ اس سے قبل 1جی یعنی فرسٹ جنریشن (Analog) اور2 جی یعنی سیکنڈ جنریشن(Digital) ٹیکنالوجیز موجود تھی۔ ڈیٹا
ٹرانسفر اور وڈیو ٹرانسمیشن کے لئے سستی اور تیز رفتار سہولت کی ضرورت نےتھری جی کو جنم دیا۔ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن یونین
(ITU) نے 1980ء میں اس
ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا جو تقریباً 15سال میں مکمل ہوا۔ آج یہ ٹیکنالوجی دنیا
بھر کی حکومتوں اور کمیونی کیشن کمپنیوں اولین ترجیع کی حیثیت حاصل کر
چکی ہے۔




سب سے پہلے تجارتی بنیادوں پر اس ٹیکنالوجی کا آغاز یکم اکتوبر 2001ء میں نیپن ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون نامی کمپنی نے جاپان میں کیا۔ اسی سال دسمبر میں یورپ نے اس جدید ایجاد کو شرف قبولیت بخشا۔ مئی 2002ء میں جنوبی کوریا میں اس ٹیکنالوجی کو بہت
زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور وہاں کمپنیوں کی طرف سے باقاعدہ مقابلے کی فضا قائم
ہو گئی۔




جولائی 2002ء میں امریکہ اور
جون 2003ء میں یہ تیزرفتار موبائل انٹرنیٹ سہولت آسٹریلیا پہنچ گئی جس کے بعد چین،
بھارت، شام، عراق، ترکی، کینیڈا اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے تقریباً 130ممالک آج اس ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔




ترقی یافتہ ممالک تھری جی سے
بھی آگے فورجی کی طرف جا رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تاحال 2 جی نظام ہی
رائج ہے۔یہ نطام چندسہولیات کےاضافے کے بعد 2.5جی
ہو چکا ہے۔ پاکستان کا
موجودہ سیلولر نظام

GSM
پر استوار ہے جس پر انٹرنیٹ صارفین کا دبائو بڑھنے سے
انٹر نیٹ کی رفتار انتہائی سست ہوتی جارہی ہے۔ 2 جی ٹیکنالوجی 30 تا 90 کلو بائیٹس
فی سکینڈ ڈیٹا ٹرانسفرکی رفتار مہیا کرتی ہیں اوریہ صرف چند ایک بنیادی سہولیات
فراہم کر سکتی ہے جیسے کہ وائس کال، ایس ایم ایس، کانفرنس کال،کالر آئی ڈی وغیرہ جبکہ
2.5جی
 کے تحت ایم ایم ایس بھی بھیجیں جاسکتے ہیں، ویب برائوزنگ کر سکتے ہیں، چھوٹے موٹے آڈیو ویڈیو کلپ، گیمز، اور
ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ 2 جی کے مقابلے میں 3جی
نظام کے تحت ڈیٹا ٹرانسفر سپیڈ دو سے تین میگا بائیٹ فی سکینڈ تک پہنچ
جاتی ہے۔




دنیا کے بیشتر ممالک تھری جی ٹیکنالوجی کی مدد سے نقل و حمل، تعلیم، صحت اور مالیاتی خدمات کے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض ممالک فور جی تک بھی رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ بدقسمتی پاکستان میں تاحال تھری جی ٹیکنالوجی کوسوں دور دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے ہاں 2009ء میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کی باتیں شروع ہوئیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تاحال تھری جی ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی کا عمل تک شروع نہیں ہو سکا۔








پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً 13 کروڑلگ بھگ ہے جن میں سے 2کروڑ سے زائد صارفین موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے استعمال کے لئے موزوں موبائل فونز سیٹس، خاص طور پر چینی ساختہ سمارٹ فونز کی گرتی ہوئی قیمت موبائل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔ آج پاکستان میں اسمارٹ فونز کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں پاکستان کو ایشیاء کی پانچویں بڑی مارکیٹ قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھری جی ٹیکنالوجی کے آنے سے موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں 50سے 70 فیصد تک اضافہ ہوجائےگا۔




پاکستان میں یہ ٹیکنالوجی کب تک آسکے گی؟اسکا انتظار ہرایک کوہے۔ آئی ٹی ماہرین پر امید ہیں کہ رواں سال کے آخر تک تھری جی لائیسنس کے بارے میں کوئی واضح پالیسی سامنے آجائے گی۔ اگرچہ لائیسنس نیلامی کے عمل بعد بھی اس ٹیکنالوجی کے اطلاق میں سال بھر مزید لگ سکتا ہے لیکن کوئی بعید نہیں کہ انٹر نیٹ کی طرح یہ ٹیکنالوجی بھی کسی بپھرے ہوئے سیلاب کی طرح پاکستان میں داخل ہوجائے اور تیزی سے مقبولیت کی منزلیں طے کرنا شروع کردے۔









Read More

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood