Wednesday 9 October 2013

تھری جی ٹیکنالوجی







گزشتہ کچھ عرصہ سے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں تھری جی یعنی تھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی کا بڑا چرچا ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بھی یہ نظام بہت جلد آرہا ہے۔ لیکن تھری جی نظام حقیقت میں ہے کیا؟ اس بارے میں بہت کم لوگ معلومات رکھتے ہیں۔



مستقبل میں دنیا میں ہونے والی معاشی و معاشرتی تبدیلیوں میں ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کریگی۔ آج دنیا گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے جو بلاشبہ انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا کوئی بھی شخص آپ سے صرف ایک بٹن کی دوری پر ہے۔ ٹیبل فون،موبائل فون، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کا معیار بدل کر رکھ دیا ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن سروسز کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں جدت لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ انٹرنیٹ، موبائل اور پھر موبائل پر انٹرنیٹ کے استعمال نے دنیا کو ایک کھلی کتاب کی مانند بدل دیا ہے، لیکن موبائل پر انٹرنیٹ کی کم رفتار اور ویڈیو کانفرنسز جیسی سہولیات کی عدم دستیابی اس تیز رفتار ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس خامی پر قابو پانے کے لئے آئی ٹی ماہرین نے سر جوڑا اور ون جی اور ٹو جی کے بعد اب تھری جی جیسی نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی۔



اس وقت دنیا میں تھری جی سب سے جدید ٹیکنالوجی ہے۔ اس سے قبل 1جی یعنی فرسٹ جنریشن (Analog) اور2 جی یعنی سیکنڈ جنریشن(Digital) ٹیکنالوجیز موجود تھی۔ ڈیٹا
ٹرانسفر اور وڈیو ٹرانسمیشن کے لئے سستی اور تیز رفتار سہولت کی ضرورت نےتھری جی کو جنم دیا۔ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن یونین
(ITU) نے 1980ء میں اس
ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا جو تقریباً 15سال میں مکمل ہوا۔ آج یہ ٹیکنالوجی دنیا
بھر کی حکومتوں اور کمیونی کیشن کمپنیوں اولین ترجیع کی حیثیت حاصل کر
چکی ہے۔




سب سے پہلے تجارتی بنیادوں پر اس ٹیکنالوجی کا آغاز یکم اکتوبر 2001ء میں نیپن ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون نامی کمپنی نے جاپان میں کیا۔ اسی سال دسمبر میں یورپ نے اس جدید ایجاد کو شرف قبولیت بخشا۔ مئی 2002ء میں جنوبی کوریا میں اس ٹیکنالوجی کو بہت
زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور وہاں کمپنیوں کی طرف سے باقاعدہ مقابلے کی فضا قائم
ہو گئی۔




جولائی 2002ء میں امریکہ اور
جون 2003ء میں یہ تیزرفتار موبائل انٹرنیٹ سہولت آسٹریلیا پہنچ گئی جس کے بعد چین،
بھارت، شام، عراق، ترکی، کینیڈا اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے تقریباً 130ممالک آج اس ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔




ترقی یافتہ ممالک تھری جی سے
بھی آگے فورجی کی طرف جا رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تاحال 2 جی نظام ہی
رائج ہے۔یہ نطام چندسہولیات کےاضافے کے بعد 2.5جی
ہو چکا ہے۔ پاکستان کا
موجودہ سیلولر نظام

GSM
پر استوار ہے جس پر انٹرنیٹ صارفین کا دبائو بڑھنے سے
انٹر نیٹ کی رفتار انتہائی سست ہوتی جارہی ہے۔ 2 جی ٹیکنالوجی 30 تا 90 کلو بائیٹس
فی سکینڈ ڈیٹا ٹرانسفرکی رفتار مہیا کرتی ہیں اوریہ صرف چند ایک بنیادی سہولیات
فراہم کر سکتی ہے جیسے کہ وائس کال، ایس ایم ایس، کانفرنس کال،کالر آئی ڈی وغیرہ جبکہ
2.5جی
 کے تحت ایم ایم ایس بھی بھیجیں جاسکتے ہیں، ویب برائوزنگ کر سکتے ہیں، چھوٹے موٹے آڈیو ویڈیو کلپ، گیمز، اور
ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ 2 جی کے مقابلے میں 3جی
نظام کے تحت ڈیٹا ٹرانسفر سپیڈ دو سے تین میگا بائیٹ فی سکینڈ تک پہنچ
جاتی ہے۔




دنیا کے بیشتر ممالک تھری جی ٹیکنالوجی کی مدد سے نقل و حمل، تعلیم، صحت اور مالیاتی خدمات کے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض ممالک فور جی تک بھی رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ بدقسمتی پاکستان میں تاحال تھری جی ٹیکنالوجی کوسوں دور دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے ہاں 2009ء میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کی باتیں شروع ہوئیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تاحال تھری جی ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی کا عمل تک شروع نہیں ہو سکا۔








پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً 13 کروڑلگ بھگ ہے جن میں سے 2کروڑ سے زائد صارفین موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے استعمال کے لئے موزوں موبائل فونز سیٹس، خاص طور پر چینی ساختہ سمارٹ فونز کی گرتی ہوئی قیمت موبائل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔ آج پاکستان میں اسمارٹ فونز کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں پاکستان کو ایشیاء کی پانچویں بڑی مارکیٹ قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھری جی ٹیکنالوجی کے آنے سے موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں 50سے 70 فیصد تک اضافہ ہوجائےگا۔




پاکستان میں یہ ٹیکنالوجی کب تک آسکے گی؟اسکا انتظار ہرایک کوہے۔ آئی ٹی ماہرین پر امید ہیں کہ رواں سال کے آخر تک تھری جی لائیسنس کے بارے میں کوئی واضح پالیسی سامنے آجائے گی۔ اگرچہ لائیسنس نیلامی کے عمل بعد بھی اس ٹیکنالوجی کے اطلاق میں سال بھر مزید لگ سکتا ہے لیکن کوئی بعید نہیں کہ انٹر نیٹ کی طرح یہ ٹیکنالوجی بھی کسی بپھرے ہوئے سیلاب کی طرح پاکستان میں داخل ہوجائے اور تیزی سے مقبولیت کی منزلیں طے کرنا شروع کردے۔









0 comments:

Post a Comment

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood