Read More

برطانوی شہر میں بغیر ڈرائیور کاریں چلیں گی

برطانیہ کے شہر ملٹن کینز کی سڑکوں پر 2015 سے بغیر ڈرائیور کے کاریں چلنا شروع کر دیں گی
Read More

Slide 2 Title Here

Slide 2 Description Here
Read More

Slide 3 Title Here

Slide 3 Description Here
Read More

Slide 4 Title Here

Slide 4 Description Here
Read More

Slide 5 Title Here

Slide 5 Description Here

Thursday 14 November 2013

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے











خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو



یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو



یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو



گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو



خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو



ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو



خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو



(احمد ندیم قاسمی​)


Read More

شیخ الاطباء-ابن سینا







شیخ الرئیس بو علی سینا ابن سینا (AVICENNA) کا پورا نام "ابو علی الحسین ابن عبداللہ ابن علی سینا"تھا۔ یہ بخارا کے قریب افشنہ نامی قصبے میں 980ء میں پیدا ہوا۔ تعلیم و تربیت کے لیے اس کے والد نے "شیخ اسمٰعیل زاہد"کے سُپرد کر دیا۔ دس سال کی عمر میں ہی اس نے قرآن حفظ کر لیا اور فنِ ادب پر دسترس حاصل کر لی۔ بعد ازاں اس نے ایک سبزی فروش سے علم ریاضی اور ایک نصرانی عالم "عیسیٰ بن یحییٰ"سے علم طب سیکھا۔ ان علوم کے علاوہ بھی اسے منطق، موسیقی، شاعری، طبیعات، الہیاٰت، ہیئت، کیمیا اور علم الخواص اشیاء پر عبور حاصل تھا۔ شیخ کی علمی قابلیت اور ذہانت کا کچھ ہی دنوں میں دور دور تک شہرہ ہونے لگا۔ انہیں دنوں امیر بخارا "نوح بن منصور" ایک سخت مرض میں مبتلا ہوا۔ اس کے مقرب اطباء علاج سے قاصر رہے۔ امیر کے علاج کی غرض سے ابن سینا کو بلایا گیا۔ اس نے چند ہی دنوں میں امیر بخارا کو اس مرض سے نجات دلا دی۔ امیر بخارا نے خوش ہو کر اسے اپنا طبیب خاص مقرر کر لیا۔



شیخ ابنِ سینا کی پوری زندگی تعلیم و تعّلم اور علاج معا لجہ میں گزری۔ اس کی تصانیف کے مطالعہ سے اس کی ذہانت اور غیر معمولی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اہل یورپ نے بو علی سینا کے کارناموں کی جو قدر کی اس سے پوری دُنیا واقف ہے۔ اس کی ہمہ گیر شخصیت نے مشرق و مغرب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں جس کی وجہ سے مورخین نے اسے زبر دست خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اسے "شیخ الاطباء"اور "شیخ الرئیس" جیسے معزز القاب سے نوازا۔



مشہور جملہ ہے کہ "علم طب ناقص تھا ابن سینا نے اسے مکمل کیا۔"اس نے علمِ طب میں نئے نئے وسائل ایجاد کیے اور جو نقائص اور خامیاں نظر آئیں انہیں دور کر کے اس فن کو ایک مکمل علم کی صورت میں پیش کیا گویا علمِ طب میں اسے مجتہد کا درجہ حاصل ہے۔ ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے قناطیر (Catheter)، علم بتر (Amputation) اور دماغی امراض کے لیے برف کی ٹوپی (Ice cap) کا استعمال کیا۔ اس کے علاوہ اس نے آنکھوں کے ناسور کے علاج کا طریقہ



شیخ الرئیس ابن سینا کثیر التصانیف اور ماہر علم جراح تھے۔ "کتاب الشفاء" اور "القانون فی الطب" آج بھی فظعیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ "القانون فی الطب"ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کا اصل نسخہ پہلی مرتبہ روم سے 1593ء میں شائع ہوا۔ اس طرح عربی زبان کی یہ پہلی کتاب ہے جو شائع ہوئی۔ اس کے بعد روسی اور فرانسیسی زبان میں بھی اس کے تراجم ہوئے اور صدیوں تک یورپ کی مختلف طبی درس گاہوں میں شامل نصاب رہی۔ مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ بھی "الارشادات"، "کتاب النجات"، "الادویۃ القلبیہ" اور "الار جوزہ فی الطب" "کتاب السیاست"، "تہافتہ التہافتہ"، "منطق المشرکین و القصیدہ المزدوج فی المنطق" کافی مشہور ہیں۔ سرجری سے متعلق اس کا رسالہ"رسالہ فی الفصد"آج بھی ملک کی متعدد لائبریریوں میں محفوظ ہے۔ ابنِ سینا جہاں دیگر علوم اور علمِ طب میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہیں فنِ جراحی میں بھی وہ یکتا تھا۔ اتنی خوبیوں کا ما لک 1037ء میں 57 برس کی عمر میں ایران کے شہر ہمدان میں اس دارفانی سے کوچ کرگیا اور اپنے پیچھے بے شمار ایجادات اور تصانیف کا خزانہ چھوڑ گیا تاکہ آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کریں۔





(از: طالب انصاری - اجالے ماضی کے)


Read More

جنگل میں محفل مباحثہ








ایک صوفی تھکا ہارا جنگل میں جا رہا تھا اور چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں جنگل کے جانوروں کا اجتماع تھا اور محفل مباحثہ گرم تھی ۔ اس صوفی کو چونکہ جانوروں کی بولیوں کا علم تھا اس لیے وہ رک کر سننے لگا ۔ مباحثے کی صدارت ایک بوڑھے شیر کی سپرد تھی۔




سب سے پہلے لومڑی اسٹیج پر آئی اور کہا برردارنِ دشت سنئے اور یاد رکھئے کہ "چاند سورج سے بڑا ہے اور اس

زیادہ روشن ہے"۔ ہاتھی نے اپنی باری پر کہا " گرمیاں سردیوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں۔"




جب باگھ اسٹیج پر آیا تو سارے جانور اس کی خوبصورتی سے مسحور ہو گئے ۔ اس نے اپنے پیلے بدن پر سیاہ دھاریوں کو لہرا کر کہا "سنو بھائیو ! دریا ہمیشہ سے اوپر کو چڑھتے ہیں۔" 




صوفی نے شیر ببر سے کہا صاحبِ صدر! یہ سب غضب کے مقرر ہیں اور ان کی وضاحت نے اس محفل کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ سارے مقررین نے سارے ہی بیان غلط دیئے ہیں اور ہر بات الٹ کہی ہے۔ سامعین کو یا تو پتہ نہیں یا انہوں نے توجہ نہیں دی یا پھر وہ لا تعلقی سے سنتے رہے ہیں ۔ ایسی احمقانہ اور غلط باتیں کرنے کی کس نے اجازت دی۔





شیر نے کہا " صوفی صاحب ! یہ واقعی ایک عیب دار بات ہے اور شرمناک بات ہے لیکن ہمارے سامعین انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں انلائنمنٹ نہیں ۔ پتہ نہیں ہم کو یہ عادت کیسے پڑی لیکن پڑ گئی ہے صوفی صاحب "۔ 





(اشفاق احمد کی کتاب "بابا صاحبا" سے اقتباس)


Read More

Wednesday 13 November 2013

عمر ؓ ثانی - عمر بن عبدالعزیز








عمر بن عبدالعزیز خلفائے بنو امیہ میں ایک قابل عزت نام ہے۔ ان کے دور خلافت کو خلیفہ ثانی کے دورخلافت کے مماثل قرار دیا جاتا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کی والدہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پوتی تھی۔ اُن پر نانہال کا بڑا اثر پڑا تھا۔ عادات و خصائل میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کافی ملتے جلتے ہیں۔ عزت و احترام کا جو اونچا مقام انہیں نصیب ہوا، خلفائے بنی اُمیہ میں اور کسی کو نصیب نہ ہوسکا۔ آج بھی لوگ اُن کا نام بڑی عزت سے لیتے ہیں۔ 





عمر بن عبدالعزیز خلافت سے قبل عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے زمانے کے سب سے زیادہ خوش لباس شحص سمجھے جاتے تھے۔ لیکن خلیفہ مقرر ہوتے ہی اُن کا انداز بالکل بدل گیا۔ سیدھی سادی زندگی اختیار کرلی۔ ملکی انتظام کے جن قاعدوں اور اصولوں پر خلفائے راشدین کے زمانے میں عمل کیا جاتا تھا خلفائے بنو امیہ نے اُن پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے اُنہیں دوبارہ رواج دیا اور لوگوں کو ایسا معلوم ہوا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کا مبارک زمانہ پلٹ آیا ہے۔





عمر بن عبدالعزیز عدل و انصاف کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ سچائی کے راستے سے ذرا اِدھر اُدھر نہیں ہوتے تھے اور کسی حالت میں بھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے چُھوٹنے نہیں پاتاتھا۔ اِس کےساتھ ساتھ وہ جس قسم کی زندگی بسر کرتے تھے اُس میں بدوؤں کی سی سادگی نظر آتی تھی۔ 





اُن کی خلافت کا انداز خلفائے بنو امیہ سے یکسر جدا تھا۔ اپنی ذمہ داریوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک رات عشاء کی نماز کے بعد دعا مانگنے کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو جی بھر آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ بیوی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔ "مجھے مسلمانوں اور غیر مسلم ذمیوں کا حاکم بنا دیا گیا ہے۔ میری حکومت میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں پیٹ بھرنے کو روٹی میسر نہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جنہیں تن ڈھانکنے کو کپڑا نہیں۔ کوئی بیمار اپنے بستر پر پڑا کراہ رہا ہے لیکن علاج کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں۔ کسی مظلوم پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور کوئی نہیں جو اُس کی مدد کرے۔ کوئی بے وطن قید خانے میں بیٹھا اپنے بچوں کو یاد کررہا ہے اور کوئی سفید ریش بوڑھا اِس خیال سے بیکل ہے کہ کوئی اُسے سہارا دینے والا نہیں۔ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کنبہ بڑا ہے اور آمدنی کم۔ اِس لئے بڑی مشکل سے گزر ہوتی ہے۔ غرض اِس قسم کے مصیبت زدہ کثرت سے ہیں جو مختلف ملکوں اور صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ قیامت کے دن جب اللہ مجھ سے سوال کرےگا کہ تم نے اِن لوگوں کے لئے کیا کیا، تو میں کیا جواب دوں گا؟"





عمر بن العزیز نے خلیفہ بننے کے بعد انتہائی سادہ زندگی بسر کی اور اپنے گزارے کے لئے خلیفہ ولید کے زمانے میں ملی ہوئی جاگیر سے بھی دست بردار ہوگئے۔ ساری جمع جتھا حتیٰ کہ بیوی کا سارا زیور بھی بیت المال میں جمع کروا دیا اور اپنے گزارے کے لئے روزانہ دو درہم بیت المال سے لیتے تھے۔ انہیں میں سارے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ 


Read More

Tuesday 12 November 2013

آسٹریلیا میں بطخوں کی ماڈلنگ







موجودہ دور میں روزانہ نت نئے فیشن متعارف کئے جارہے ہیں اورلوگ خود کو ان کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے کی کوششوں میں نظر آتے ہیں۔ دنیا میں کچھ سر پھرے ایسے بھی ہیں جنہوں نے خود تیار ہونے کیساتھ ساتھ جانوروں کو بھی سجانا سنوارنا شروع کر دیا ہے۔ کچھ ایسا ہی رنگ آسٹریلیا میں نظر آیا جہاں بطخوں نے فیشن کی دنیا میں قدم رکھ کر ماڈلنگ کا آغاز کیا۔







آسٹریلیا میں بطخوں نے اپنے لئے ڈیزائن کر دہ ماہر ڈیزائنرز کے ملبوسات اور ہیٹس پہن کر گھاس اور پھولوں سے سجے ریمپ پرسپر ما ڈلز کی طرح واک کر کے شائقین سے داد وصول کی۔ اس منفرد ترین فیشن شو میں بطخوں نے روایتی دولہا دلہن کا روپ دھار کر بھی ماڈلنگ کی اور اپنے ننھے قدموں سے ریمپ پر چل کر اپنی اس پوشیدہ صلا حیت کا بھی اظہار کیا جو سب کو بے حد پسند آئی۔





Read More

Monday 11 November 2013

رکوع میں جانے کا فن







میں نے ندی کے کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اور میں دیر تک کھڑا ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کے لئے جھکنا پڑتا ہے اور رکوع میں جائے بغیر پانی نہیں بھرا جا سکتا. ہر شخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح سے آنا چاہیے تاکہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے اور خوب سیر ہو سکے…. لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان جھکنے کا اور خم کھانے کا آرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اور اس کی زبردست طاقتور انا اس کو یہ کام نہیں کرنے دیتی. یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادت اکارت جا رہی ہے اور انسان اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا ہے -




اصل میں زندگی ایک کشمکش اور جدوجہد بن کر رہ گئی ہے.اور اس میں وہ مٹھاس، وہ ٹھنڈک اور شیرینی باقی نہیں رہی جو حسن اور توازن اور ہارمنی کی جان تھی. اس وقت زندگی سے چھلکنے اور رکوع کرنے کا پرسرار راز رخصت ہو چکا ہے اور اس کی جگہ محض جدوجہد باقی رہ گئی ہے. ایک کشمکش اور مسلسل تگ و تاز-



لیکن ایک بات یاد رہے کہ یہ جھکنے اور رکوع میں جانے کا آرٹ بلا ارادہ ہو ورنہ یہ بھی تصنع اور ریا کاری بن جائے گا اور یہ جھکنا بھی انا کی ایک شان کہلانے لگے گا.



(اشفاق احمد کی کتاب "بابا صاحبا" سے اقتباس)


Read More

Saturday 9 November 2013

یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔۔۔







ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ خوشحالی کے دن تھے۔ ایک دن بادشاہ کی ملاقات ایک درویش صفت بزرگ سے ہوئی، بزرگ بہت نیک اور پرہیزگار تھے۔ بادشاہ اُن سے بہت عزت سے پیش آیا اور ملاقات کے آخر میں اس نے فرمائش کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز، تعویز، وظیفہ وغیرہ لکھ کر دیں جو انتہائی مشکل میں میرے کام آئے۔ بزرگ خاموش رہے لیکن بادشاہ کا اصرار بڑھا تو انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کاغذ کو اُسی وقت کھولنا جب تم سمجھو کہ بس اب اس کے آگے تم کچھ نہیں کر سکتے یعنی انتہائی مشکل میں۔




قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اس ملک پر حملہ ہو گیا اور دشمن کی فوج نے بادشاہ کی حکومت کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ بادشاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور وہ بھاگ کر کسی جنگل میں ایک غار میں چھپ گیا۔ دشمن کے فوجی اس کے پیچھے تھے اور وہ تھک کر اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں درویش بابا کا دیا ہوا کاغذ یاد آیا، اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، خوش قسمتی سے وہ اس کے پاس ہی تھا۔ سپاہیوں کے جوتوں کی آہٹ اسے قریب آتی سنائی دے رہی تھی، اب اس کے پاس کاغذ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب اس نے وہ کاغذ کھولا تو اس پر لکھا تھا "یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔۔!"




بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ بزرگ نے یہ کیا کھیل کھیلا ہے، کوئی اسمِ اعظم ہوتا یا کوئی سلیمانی ورد!۔ ۔ ۔ لیکن افسوس وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تحریر کو دوبارہ پڑھا، سہہ بارہ پڑھا۔۔۔۔  کچھ دیر تو بادشاہ سوچتا رہا، غور کرتا رہا کہ کیا کرے پھر آخر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور سپاہیوں کا انتظار کرنے لگا۔ سپاہی آئے، اس نے مقابلہ کیا ا ور وہ بچ نکلا۔





اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کس طرح کسی دوسرے ملک میں گیا، وہاں اس نے اپنی فوج کو اکٹھا کیا، اسے ہتھیاروں سے لیس کیا اور آخر کار ایک وقت آیا کہ اس نے اپنا ملک واپس لے لیا اور پھر سے اپنے تخت پہ جلوہ نشیں ہوا۔ اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور ہو گئے اور رعایا میں اس کا خوب تذکرہ ہوا۔ اس کے دربار میں اور دربار سے باہر بھی لوگ صرف اپنے بہادر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ اتنا بول بالا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں غرور پیدا ہوا اور وہ اپنی شجاعت پر اور سلطنت پر تھوڑا مغرور ہوا ہی تھا کہ اچانک اس کے دل میں بزرگ کا لکھا ہوا فقرہ آیا کہ "یہ وقت بھی گزر جائے گا" ۔ ۔ ۔ ۔!!


Read More

Friday 8 November 2013

ایک عرب بدو کا خلیفہ مامون الرشید سے مکالمہ











عباسی خلیفہ مامون الرشید خرسان سے حج کے لیے مکہ مکرمہ جارہے تھے۔ طوس کے مقام پر اسے ایک شخص ملا۔ کہنے لگا: " اے خلیفہ! میں ایک بدو ہوں۔" مامون یہ سن کر کہنے لگے: "کوئی تعجب کی بات نہیں۔"





یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا: "میں حج کے لیے جانا چاہتاہوں۔" مامون کہنے لگے: "اللہ کی زمین وسیع ہے، بڑی خوشی سے جاؤ۔" اس پر بدو کہنے لگا: " میرے پاس زادِ راہ نہیں ہے۔" مامون الرشید نے کہا: "تب تو تجھ پر حج فرض نہیں ہوتا۔" بدو بولا: "امیر المومنین! میں آپ سے کچھ انعام لینے آیا ہوں، فتوی تو نہیں پوچھنے آیا۔"





مامون الرشید ہنس پڑے اور اسے انعام دینے کا حکم دیا۔ 


Read More

سلطان محمود غزنوی








محمود غزنوی 998ء میں غزنی کے سلطان کی حیثیت سے تخت نشین ہوئے۔ اُس زمانے میں غزنی کا علاقہ سامانیوں کے زیر تسلط تھا۔ سامانی، شمال مشرقی ایران سے آئے تھے اور انہوں نے چین سے لیکر خلیج فارس تک ایک وسیع سلطنت قائم کر لی تھی۔ محمود نے انہیں سامانیوں کی ماتحتی سے آزادی حاصل کی پھر آس پاس کی ریاستوں کو نیچا دکھا کے غزنی کی حکومت کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ یہ عباسی خلفاء کا دور تھا۔ اگرچہ تمام سلاطین اور حکمران اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار تھے لیکن کمزور خلافت عباسیہ کے باوجود تقریباً سب کے سب خلیفہ کی اطاعت کا دم بھرتے تھے اور خطبہ میں اُس کا نام لیا جاتا تھا۔ عباسی خلیفہ کو محمود کی فتوحات کا حال معلوم ہوا تو خراسان کی حکومت کا پروانہ اور خلعت بھیجا۔ یمین الدولہ امین الملۃ کا خطاب بھی دیا۔ چنانچہ آگے چل کے محمود کے خاندان نے یمینی خاندان کے نام سے شہرت پائی۔ 





یہ وہ وقت تھا جب ہندو راجاؤں کا ایک خاندان جو ہندو شاہی کہلاتا تھا، پنجاب پر حکومت کرتا تھا۔ محمود کے والد امیر سبکتگین کی حکومت کے زمانے میں اِس خاندان کے ایک راجہ جے پال نے بہت سے ہندو راجاؤں کو ساتھ لے کر کابل پر چڑھائی کی۔ لیکن شکست کھائی اور خراج ادا کرنے کا وعدہ کرکے لوٹا۔ گھر پہنچ کر اُس کی نیت ڈانواں ڈول ہوگئی۔ اب کے پھر سبکتگین سے معرکہ ہوا۔ جس میں جے پال نے پھر شکست کھائی۔ محمود ان معرکوں میں والد کے ساتھ ساتھ رہا تھا۔ اور ہندو شاہیوں کی طاقت کو اچھی طرح آزما چکا تھا۔ والد کی وفات کے بعد جب اُسے اندرونی جھگڑوں سے اطمنان نصیب ہوا اور غزنی میں اس کے قدم اچھی طرح جم گئے تو اُس نے ہندوستان پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا اور سترہ حملے کرکے اس سرزمین میں ہل چل ڈال دی۔ جے پال کا جانشین انند پال بڑے لاؤلشکر کے ساتھ محمود کا راستہ روکنے آیا۔ کئی راجپوت راجاؤں نے اُس کی مدد کی لیکن محمود نے انہیں ایسی شکست دی کہ وہ اسے راستہ دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ وہ سرکش راجپوتوں کو نیچا دکھاتا جنگلوں اور پہاڑوں کے جنگجو قبیلوں کو دباتا وادئ گنگا جا پہنچا۔ 





محمود غزنوی نے وادئ گنگا پر پورے زور سے پہلے مرتبہ جو حملہ کیا، اُس میں قنوج، بلند شہر، متھرا، اٹاوہ، میرٹھ کے علاوہ کئی اور چھوٹے بڑے شہر فتح ہوئے۔ ان شہروں اور ان کے مندروں سے وہ بے شمار دولت سمیٹ کے غزنی لے گیا۔ اِس موقع پر اُسے جو کامیابی حاصل ہوئی تھی اس کی وجہ سے سارے عالم اسلام میں اُس کی بہادری اور اولوالعزمی کی دھاک بیٹھ گئی اور جابجا اس کا نام بڑی عزت سے لیا جانے لگا۔





ہندو شاہیوں اور دوسرے راجاؤں نے مل کر ایک جتھا بنایا اور محمود غزنوی کا راستہ روکنے کا منصوبہ بنایا۔ جب محمود کو خبر ملی تو وہ لشکر لے کر مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔ ہندوشاہیوں کے دلوں پر محمود کی ایس ہیبت چھائی ہوئی تھی کہ جب اس کی فوج سیلاب کی طرح ہندوکش کے پہاڑوں سے اُترا تو یہ جتھہ خودبخود ٹوٹ گیا اور کسی کو اُس کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔





محمود غزنوی کا سب سے بڑا کانامہ سومناتھ کی فتح ہے۔ سومناتھ، گجرات کاٹھیاوار کے علاقے میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔ یہاں ایک مشہور مندر تھا جس کی یاترا کو دور دور سے لوگ چلے آتے تھے۔ غزنی سے گجرات کافی دور تھا۔ راستے میں ہر طرف لق و دق میدان اور سنسان ریگستان پھیلے ہوئے تھے جن میں دور تک نہ پانی کا پتہ چلتا تھا اور نہ کہیں ہریالی تھی۔ محمود سفر کی صعوبتوں کی پروا کئے بغیر فوج لیکر یلغار کرتا ہوا چلا۔ راجپوت راجہ ہر طرف سے سمٹ کے یہاں جمع ہوگئے تھے۔ فوجوں کا تانتا بندھا ہوا تھا لیکن محمود نے اس طرح جھپٹ جھپٹ کے حملے کئے کہ راجپوتوں کی فوج تتر بتر ہوگئی۔ اس فتح میں ان گنت دولت ملی۔ سومناتھ کا بت بھی ہاتھ آیا۔ چنانچہ اس کامیابی پر اسلامی ملکوں میں جابجا بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ 





(از: تاریخ ہند و پاکستان - ریاض الاسلام)


Read More

Thursday 7 November 2013

میرے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟








ایک دن ملا نصرالدین منبر پر وعظ کرنے پہنچ گئے اور حاضرین سے پوچھا۔ کیا تم کو خبر ہے کہ میں تمہیں کیا سنانے والا ہوں؟ لوگوں نے کہا: ہمیں کوئی خبر نہیں۔ ملا نصرالدین یہ سن کے منبر سے اترے اور کہنے لگے کہ میں تم جیسے بے خبر لوگوں کو کیا بتاؤں جن کو کچھ خبر نہیں۔ 





دوسرے دن ملا نصر الدین پھر منبر پر پہنچے اور کہنے لگے، کیا تم کو خبر ہے کہ میں تمہیں کیا سنانا چاہتا ہوں؟ پہلے دن کے تجربے سے لوگ کہنے لگے کہ ہاں ہمیں خبر ہے۔ ملا یہ سن کر منبر سے اترے اور کہا کہ جب تمہیں پہلے ہی پتہ ہے تو میرے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ 





تیسرے دن وہ پھر منبر پر پہنچ گئے اور وہی سوال دوبارہ دہرایا، لوگ چونکہ دو روز کے جوابات سے تنگ آچکے تھے اس لیے کچھ لوگوں نے کہا کہ خبر ہے اور کچھ کہنے لگے کہ ہم نہیں جانتے۔ ملا نصرالدین یہ سن کر منبر سے اترے اور کہنے لگے: جنہیں خبر ہے وہ دوسروں کو بھی بتا دیں، میرے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔





Read More

غلافِ کعبہ : تاریخ کے آئینے میں





1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔ 



کعبة اللہ پر غلاف چڑھانے کی رسم بہت پرانی ہے خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل نے چڑھایا تھا۔ ظہو ر اسلام سے قبل بھی حضور اکرمﷺ کا خاندان مکہ مکرمہ میں بہت عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا‘ آپﷺکے جدامجد بھی تمام قبائل میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ انہوں نے بڑی سمجھداری اور فراست سے کام لیتے ہوئے غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے خصوصی بیت المال قائم کیا تاکہ تمام قبائل اپنی حیثیت کے مطابق غلاف کعبہ کی تیاری میں حصہ لے سکیں۔ فتح مکہ کی خوشی پر حضور اکرمﷺ نے یمن کا تیار کیا ہوا‘ سیاہ رنگ کا غلاف اسلامی تاریخ میں پہلی بار چڑھانے کا حکم دیا۔ آپﷺ کے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا‘ بعد میں یہ غلاف عیدالفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا۔ بعدازاں حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ 9اور 10ہجری میں بھی آپﷺ نے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا۔





اس زمانے سے آج تک ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ غلاف خوبصورت اور قیمتی کپڑے سے بنا کر اس پر چڑھاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑے حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیئے جاتے۔ آج کل یہ ٹکڑے اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کو تحفہ میں دیئے جاتے ہیں۔حضرت عثمان غنی اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پرانے غلاف پر غلاف چڑھایا اور سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔





بنو عباس نے اپنے 500 سالہ دور حکومت میں ہر سال بغداد سے غلاف بنوا کر مکہ مکرمہ روانہ کئے۔ عباسیوں نے اپنے دور حکومت میں غلاف کعبہ کی بنوائی میں خصوصی دلچسپی لی اور اسکو انتہائی خوبصورت بنایا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے سال میں 2 مرتبہ اور مامون الرشید نے سال میں تین مرتبہ غلاف کعبہ کو تبدیل کرنے کا اہتما م کیا۔ مامون الرشید نے سفید رنگ کا غلاف چڑھایا تھا‘ خلیفہ الناصر عباس نے پہلے سبز رنگ کا غلاف بنوایا لیکن پھر اس نے سیاہ ریشم سے تیار کروایا‘ اسکے دور سے آج تک غلاف کعبہ کا رنگ سیاہ ہی چلا آرہا ہے البتہ اوپر زری کا کام ہوتا ہے۔140ھ سے غلاف پر لکھائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے ۔





761 ہجری میں والی مصر سلطان حسن نے پہلی مرتبہ کعبہ کے بارے میں آیات قرآنی کو زری سے کاڑھنے کا حکم دیا۔ 810 ہجری میں غلاف کعبہ بڑے خوبصورت انداز میں جاذب نظر بنایا جانے لگا‘ جیسا کہ آج بھی نظر آتا ہے۔ محمود غزنوی نے ایک مرتبہ زرد رنگ کا غلاف بھیجا۔ سلمان دوم کے عہد حکومت تک غلاف مصر سے جاتا تھا‘ جب اس رسم میں جاہلانہ باتیں شامل کرلی گئیں تو سعودیہ عرب سے مصریوں کے اختلافات بڑھ گئے اور مصریوں کا تیار کردہ غلاف لینے سے انکار کر دیا گیا۔ شریف حسین والی مکہ کے تعلقات مصریوں سے 1923ء میں خراب ہوئے چنانچہ مصری حکومت نے غلاف جدہ سے واپس منگوا لئے۔





1927ءمیں شاہ عبد العزیز السعود نے وزیر مال عبداللہ سلیمان المدن اور اپنے فرزند شہزادہ فیصل کو حکم دیا کہ وہ غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے جلدازجلد ایک کارخانہ قائم کریں اور 1346 ہجری کےلئے غلاف کی تیاری شروع کر دیں چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایک کارخانہ قائم کرکے ہندوستانی کاریگروں کی نگرانی میں غلاف کی تیاری شروع کر دی اور یوں سعودیہ کے کارخانے میں تیار ہونیوالا یہ پہلا غلاف کعبہ تھا۔ مکہ میں قائم ہونیوالی اس فیکٹری کا نام ”دارالکسوہ“ ہے۔غلاف میں 150کلو سونے اور چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔





(بشکریہ: فضل حسین اعوان-نوائے وقت)


Read More

Tuesday 5 November 2013

بیٹیاں! ان کی قدر کرو، یہ آبگینے بڑے نازک ہیں








وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دو،وہ اُف کئے بغیرتمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لئے ان کے ساتھ ہو لیتی ہیں ،سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے تو چھپ چھپ کر رو لیتی ہیں،کبھی دھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کر لیا ،آٹا گوندھتے ہوئے آنسو بہتے ہیں وہ آٹے میں جذب ہو جاتے ہیں ،کوئی نہیں جانتا کہ ان روٹیوں میں اس بیٹی کے آنسو بھی شامل ہیں،غیرت مندو! ان کی قدر کرو یہ آبگینے بڑے نازک ہیں۔





 مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری


Read More

Monday 4 November 2013

منٹوں میں چارج اور ہفتوں چلنے والی موبائل فون بیٹریاں







پاکستان میں لوڈشیڈنگ جہاں بہت سے شعبوں میں مالی نقصانات کاسبب بن رہی ہے وہیں یہ رابطے کے ذریعے، موبائل فون پر بھی اثر انداز ہورہی ہے۔ اکثر موبائل صارفین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اپنے موبائل فون کی بیٹری کو اچھی طرح چارج نہیں کر پاتے اور یوں وہ اپنے کاروباری اور گھریلو روابط سے کچھ وقت کےلئے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ یوپی ایس اور شمسی توانائی جیسی متبادل ذرائع بھی استعمال ہورہے ہیں لیکن کم پاور اور چارجنگ کا دورانہ بھی مسائل کا باعث بن جاتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ اب اس مسئلے کا بھی حل آنے والا ہے۔امریکی سائنسدانوں نے نئے تجربوں کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ فون کی ایسی بیٹریاں بنائی جا سکتی ہیں جو منٹوں میں چارج ہوں گی اور ہفتوں تک چلیں گی۔





برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے سلیکون کے ایسے آلات بنائے ہیں جن سے فوری طور پر بیٹری کو چارج کیا جاسکتا ہے۔ٹینیسی کی ونڈربلٹ یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ کے سائنسدانوں نے سُپر کیپسیٹر زکے سائز اور اس پر آنے والی لاگت کو کم کرنے کے لیے متعددتجربات کیے ہیں۔سائنسدانوں نے کہا ہے کہ موجودہ بیٹریوں کے مقابلے یہ بیٹریاں نسبتاً زیادہ وقت تک موبائل فون کو توانائی مہیا کرسکے گی۔






سلیکون کے یہ حصے موجودہ چِپ پروڈکشن سسٹم میں بآسانی لگائے جا سکتے ہیں۔ان سستے سُپر کیپسیٹر زسے دوبارہ قابِل استعمال توانائی کے وسائل میں بھی مدد مل سکتی ہے۔کاربن سے بنائے گئے سُپر کیپسیٹر کو پہلے ہی بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور ونڈ ٹربائنز میں توانائی سٹور کرنے کے نظام کے طور پر استعمال کیا جا چکا ہے۔


Read More

Saturday 2 November 2013

ریاکار درویش







بیان کیا جاتا ہے کہ ایک ریاکار شخص جو صرف دنیا کو دکھانےکے لئیے نیکیاں کرتا تھا، ایک دن بادشاہ کا مہمان ہوا۔ اس نے بادشاہ پر اپنی بزُرگی کا رعب ڈالنے کے لیے بلکل تھوڑا کھانا کھایا لیکن نماز میں کافی وقت لگایا۔ جب یہ شخص بادشاہ سے رخصت ہو کر اپنے گھر آیا تو آتے ہی کھانا طلب کیا۔ اسکے بیٹے نے کہا، کیا آپ بادشاہ کے ساتھ کھانا کھا کے نہیں آئے؟ اس نے کہا، وہاں میں نے اس خیال سے کم کھایا تھا کہ بادشاہ کو میری پرہیزگاری کا اعتبار ہو آ جائے اور اسکے دل میں میری عزت زیادہ ہو۔

بیٹے نے کہا، پھر تو آپ نماز بھی دوبارہ پڑھیں کیونکہ وہ بھی آپ نے بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے ہی پڑھی تھی۔​


؎ عیب اپنے چھپا لیے تو نے اور ہُنر آشکار کرتا ہے​


تیرا کیا حشر ہوگا، اے مغرور! تُو برا بیوپار کرتا ہے۔​


وضاحت:​



اس حکایت میں شیخ سعدی  نے ریاکاری کی مذمت کی ہے ۔ ریاکار اگرچہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی چالاکی سے لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عالم الغیب خُدا کو کس طرح دھوکہ دے گا! قیامت کے دن اسکے اچھے برے سب اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور اسکی ریاکاری سخت عذاب کا موجب بنے گی۔


Read More

امیر کی اطاعت








ایک درویش بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں کوفہ سے مکہ مکرمہ کے ارادے سے چلا۔ راستہ میں حضرت ابراہیم خواص  سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے صحبت میں رہنے کی اجازت مانگی انہوں نے فرمایا صحبت میں ایک امیر ہوتا ہے، اور دوسرا فرمانبردار۔ تم کیا منظور کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا، آپ امیر بنیں اور میں فرمابنردار، انہوں نے کہا اگر فرمابنردار بننا پسند کرتے ہو تو میرے کسی حکم سے باہر نہ ہونا۔ میں نے کہا۔ یہی ہوگا۔ جب ہم منزل پر پہنچے تو انھوں نے کہا بیٹھ جاؤ۔ میں بیٹھ گیا۔ انہوں نے کنویں سے پانی کھینچا جو بہت سرد تھا پھر لکڑیاں جمع کر کے ایک جگہ پر آگ جلائی اور پانی گرم کیا۔ میں جس کام کا ارادہ کرنے کی جسارت کرتا وہ فرماتے بیٹھ جاؤ۔ فرمانبرداری کی شرط کو ملخوظ رکھو۔ جب رات ہوئی تو شدید بارش نے گھیر لیا۔انہوں نے اپنی گڈری اتار کر کندھے پر ڈالی اور رات بھر میرے سر پر سایہ کئے کھڑے رہے۔ میں ندامت سے پانی پانی ہوا جارہا تھا مگر شرط کے مطابق کچھ نہ کر سکتا تھا۔



 جب صبح ہوئی تو میں نے کہا اے شیخ! آج میں امیر بنوں گا۔ انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے، جب ہم منزل پر پہنچے تو انہوں نے پھر وہی خدمت اختیار کی میں نے کہا اب آپ میرے حکم سے باہر نہ ہوجائیے۔ فرمایا! فرمان سے وہ شخص باہر ہوتا ہے جو اپنے امیر سے خدمت کرائے۔ وہ مکہ مکرمہ تک اسی طرح میرے ہم سفر رہے جب ہم مکہ پہنچے تو میں شرم کے مارے بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ انہوں نے مجھے منیٰ میں‌دیکھ کر فرمایا اے فرزند! تم پر لازم ہے کہ درویشوں کے ساتھ ایسی صحبت کرنا جیسی کہ میں نے تمہارے ساتھ کی ہے۔


("کشف المحجوب" - مترجم غلام معین الدین نعیمی)


Read More

اخبارات کی تاریخ








اخبار,خبروں کی ترسیل کا ایک بہت پرانا ذریعہ ہے۔ زمانہ قدیم سے انسان مختلف طریقوں سے خبروں کی ترسیل کیا کرتا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام سے ہزاروں سال قبل انسان مختلف ذرائع سے اطلاعات کی ترسیل کیا کرتا تھا۔ ان میں دھویں کے ذریعہ، ڈھول، نقارے یا ناقوس کی آواز کے ذرائع شامل تھے۔ انہیں کے ذریعے انسان اطلاعات کی ترسیل کرکے دُشمنوں سے بچنے کی تدا بیر کیا کرتا تھا۔



دُنیا میں پہلا اَخبار کب اور کہاں شائع ہوا یہ وثوق سے کہنا تو نہایت مشکل ہے تاہم اخبارات کی عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم روم میں جولیس سیزر کے عہد میں سرکاری اعلانات کے بلیٹن ’ایکٹا ڈیورنا ‘کے نام سے شائع کیے جاتے تھے۔پتھر یا دھات کی تختیوں پر اطلاعات کندہ کرکے انہیں عام جگہوں پر نصب کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح چینی حکومت نے بھی پہلی یا دوسری صدی عیسوی میں اپنے درباریوں کے لیے ایک اطلاع نامہ جاری کیا تھا، جسے ’تِپاؤ‘ کہا جاتا تھا۔ چین میں ٹینگ حکمرانی کے دوران بھی ایک سرکاری اخبار ریشم کے کپڑے پر دستی تحریر سے شائع کیا جاتاتھاجسے صرف سرکاری افسران پڑھتے تھے۔








Read More

Friday 1 November 2013

چاکلیٹ زمانہ قبل از مسیح سے زیر استعمال ہے







سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے اس بارے میں شواہد دریافت کر لیے ہیں کہ وسطی امریکہ کے باشندے کم از کم تین ہزار سال سے کاکاؤ سے بنائی گئی چاکلیٹ کے مشروبات پی رہے ہیں۔ اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ اس چاکلیٹ کے مشروب کا استعمال اس سے پانچ سو برس بعد شروع ہوا تھا۔

نیویارک کی کرنیل یونیورسٹی میں بشریات کے پروفیسر جون ہینڈرسن نے کہا کہ ان کی ٹیم نے جنوبی امریکہ کے ملک ہانڈوراس میں ملنے والے مٹی کے برتنوں کے ٹکڑوں پر پائے جانے والے بچے کھچے اجزاء کا تجزیہ کیا۔ ہنڈرسن نے کہا کہ وسطی امریکہ کے پرانے باشندے ممکن ہے ایک ایسا مشروب بھی پیتے ہوں جو کاکاؤ پودے سے تیار ہوتا تھا۔

ہینڈرسن نے خیال ظاہر کیاکہ ان ابتدائی مشروبات نے ممکن ہے بعد میں چاکلیٹ کے اس مشروب کی شکل اختیار کرلی ہو جو سولھویں صدی کے یورپی باشندے پیا کرتے تھے۔ یہ مشروب یورپی باشندوں کے ساتھ ان کے وطن پہنچا جس کے نتیجے میں چاکلیٹ کی جدید صنعت وجود میں آئی۔


(وائس آف امریکہ)


Read More

اللہ کے ذکر کی طاقت







ایک نامی گرامی بادشاہ کی چہیتی بیٹی بیمار پڑی۔ اس عہد کے بڑے اطباء اور صادق حکیموں سے اس کا علاج کروایا لیکن مرض بگڑتا گیا۔ آخر میں وہاں کے سیانے کو بلاکر مریضہ کو دکھایا گیا۔ اس نے مریضہ کے سرہانے بیٹھ کر لا اِلٰہ کا ورد شروع کر دیا۔ طبیب اور حکیم اس کے اس فعل کو دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہا کہ محض الفاظ جسم پر کس طرح اثر انداز ہونگے! تعجب! اس صوفی نے چلا کر کہا "خاموش! تم سب لوگ گدھے ہو اور احمقوں کی سی بات کرتے ہو۔ اس کا علاج ذکر ہی سے ہوگا۔" اپنے لیے گدھے اور احمق کے الفاظ سن کر ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور ان کے جسموں کے اندر خون کا فشار بڑھ گیا۔ اور انہوں نے صوفی کے خلاف مکے تان لیے۔ صوفی نے کہا "اگر گدھے کے لفظ نے تم کو چراغ پا کر دیا ہے اور تم سب کا بلڈ پریشر ایک دم ہائی ہو گیا ہے اور تم نے میرے خلاف مکے تان لیے تو کیا ذکر اللہ اس بیمار بچی کے وجود پر کوئی اثر نہیں کرے گا؟"


اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے، آمین۔




(اشفاق احمد کی کتاب "بابا صاحبا" سے اقتباس)


Read More

حقوق اللہ اور حقوق العباد






انسان پر سب سے پہلے حقوق اللہ کی ادائیگی کو ضروری قرار دیا گیا ہے، کیونکہ انسان کو عدم سے وجود بخشنے والا صرف ایک اللہ ہے، لہذا انسان کے خالق و مالک ہونے کے ناطے اللہ تعالی کے حقوق ہر لحاظ سے فائق و برتر ہیں اور حقوق اللہ میں سرفہرست حق یہ ہے کہ اللہ تعالی کو وحدہ لاشریک مانا جاۓ اور توحید باری تعالی کا قولی وعملی اقرار کیا جاۓ- روز آخرت انسان کی نجات کا معیار یہی توحید باری تعالی ہے۔

حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا معاملہ ہے- حقوق العباد میں سرفہرست والدین کا حق ہے- اللہ تعالی کے بعد انسان کا سب سے قریبی تعلق اپنے والدین سے ہوتا ہے- والدین ہی اسکی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں اور اسکی تعلیم وتربیت کی وجہ سے دیگر انسانوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ وہی اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ انکے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کیا جاۓ۔

قرآن مجید کی کم وبیش چار آیات میں اللہ تعالی نے والدین کے حق کو اپنے حق کے متصل بعد ذکر کیا ہے جس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں والدین کے حقوق کی کیا اہمیت ہے۔

اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو


Read More

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood