Wednesday 13 November 2013

عمر ؓ ثانی - عمر بن عبدالعزیز








عمر بن عبدالعزیز خلفائے بنو امیہ میں ایک قابل عزت نام ہے۔ ان کے دور خلافت کو خلیفہ ثانی کے دورخلافت کے مماثل قرار دیا جاتا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کی والدہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پوتی تھی۔ اُن پر نانہال کا بڑا اثر پڑا تھا۔ عادات و خصائل میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کافی ملتے جلتے ہیں۔ عزت و احترام کا جو اونچا مقام انہیں نصیب ہوا، خلفائے بنی اُمیہ میں اور کسی کو نصیب نہ ہوسکا۔ آج بھی لوگ اُن کا نام بڑی عزت سے لیتے ہیں۔ 





عمر بن عبدالعزیز خلافت سے قبل عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے زمانے کے سب سے زیادہ خوش لباس شحص سمجھے جاتے تھے۔ لیکن خلیفہ مقرر ہوتے ہی اُن کا انداز بالکل بدل گیا۔ سیدھی سادی زندگی اختیار کرلی۔ ملکی انتظام کے جن قاعدوں اور اصولوں پر خلفائے راشدین کے زمانے میں عمل کیا جاتا تھا خلفائے بنو امیہ نے اُن پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے اُنہیں دوبارہ رواج دیا اور لوگوں کو ایسا معلوم ہوا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کا مبارک زمانہ پلٹ آیا ہے۔





عمر بن عبدالعزیز عدل و انصاف کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ سچائی کے راستے سے ذرا اِدھر اُدھر نہیں ہوتے تھے اور کسی حالت میں بھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے چُھوٹنے نہیں پاتاتھا۔ اِس کےساتھ ساتھ وہ جس قسم کی زندگی بسر کرتے تھے اُس میں بدوؤں کی سی سادگی نظر آتی تھی۔ 





اُن کی خلافت کا انداز خلفائے بنو امیہ سے یکسر جدا تھا۔ اپنی ذمہ داریوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک رات عشاء کی نماز کے بعد دعا مانگنے کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو جی بھر آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ بیوی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔ "مجھے مسلمانوں اور غیر مسلم ذمیوں کا حاکم بنا دیا گیا ہے۔ میری حکومت میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں پیٹ بھرنے کو روٹی میسر نہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جنہیں تن ڈھانکنے کو کپڑا نہیں۔ کوئی بیمار اپنے بستر پر پڑا کراہ رہا ہے لیکن علاج کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں۔ کسی مظلوم پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور کوئی نہیں جو اُس کی مدد کرے۔ کوئی بے وطن قید خانے میں بیٹھا اپنے بچوں کو یاد کررہا ہے اور کوئی سفید ریش بوڑھا اِس خیال سے بیکل ہے کہ کوئی اُسے سہارا دینے والا نہیں۔ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کنبہ بڑا ہے اور آمدنی کم۔ اِس لئے بڑی مشکل سے گزر ہوتی ہے۔ غرض اِس قسم کے مصیبت زدہ کثرت سے ہیں جو مختلف ملکوں اور صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ قیامت کے دن جب اللہ مجھ سے سوال کرےگا کہ تم نے اِن لوگوں کے لئے کیا کیا، تو میں کیا جواب دوں گا؟"





عمر بن العزیز نے خلیفہ بننے کے بعد انتہائی سادہ زندگی بسر کی اور اپنے گزارے کے لئے خلیفہ ولید کے زمانے میں ملی ہوئی جاگیر سے بھی دست بردار ہوگئے۔ ساری جمع جتھا حتیٰ کہ بیوی کا سارا زیور بھی بیت المال میں جمع کروا دیا اور اپنے گزارے کے لئے روزانہ دو درہم بیت المال سے لیتے تھے۔ انہیں میں سارے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ 


0 comments:

Post a Comment

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood