زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم رجال کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم ماضی میں۔ زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر۔ زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول نظر آتی ہے۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل، اورعدم برداشت ہے۔ (وحید الدین خان-آداب زندگی)
Friday, 27 September 2013
زندہ قوم اور مردہ قوم
زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم رجال کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم ماضی میں۔ زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر۔ زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول نظر آتی ہے۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل، اورعدم برداشت ہے۔ (وحید الدین خان-آداب زندگی)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Popular Posts
-
وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دو،وہ اُف کئے بغیرتمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لئے ان کے ساتھ ہو لیتی ہیں ،سسرال میں ...
-
محمود غزنوی 998ء میں غزنی کے سلطان کی حیثیت سے تخت نشین ہوئے۔ اُس زمانے میں غزنی کا علاقہ سامانیوں کے زیر تسلط تھا۔ سامانی، شمال مشرقی ایران...
-
کہتے ہیں کہ ایک چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی سے پوچھا کہ"آپا یہ سمندر کہاں ہوتا ہے؟“ اُس نے کہا جہاں تم کھڑی ہوئی ہو یہ سمندر ہے- اُس نے کہ...
Categories
Blog Archive
- October 2021 (6)
- November 2013 (19)
- October 2013 (52)
- September 2013 (54)
0 comments:
Post a Comment