زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم رجال کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم ماضی میں۔ زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر۔ زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول نظر آتی ہے۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل، اورعدم برداشت ہے۔ (وحید الدین خان-آداب زندگی)
Friday, 27 September 2013
زندہ قوم اور مردہ قوم
زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم رجال کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم ماضی میں۔ زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر۔ زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول نظر آتی ہے۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل، اورعدم برداشت ہے۔ (وحید الدین خان-آداب زندگی)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Popular Posts
-
ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ ہماری سنجیدہ باتوں پر ہنسنے کیوں لگتے ہیں اور ہماری مزاحیہ باتوں پر سنجیدہ کیوں ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی تو لگ...
-
گھاس کے ایک تنکے نے خزاں رسیدہ پتے سے کہا۔ "تم گرتے وقت شور کیوں مچاتے ہو؟ تمہارے اس شور نے میرے بہاریں خواب کو پریشان کر دیا ہے۔"...
-
سنا ہے کہ چائے کے بڑے خوبصورت باغ ہوتے ہیں۔ یہ بات یوں بھی سچ معلوم ہو تی ہے کہ چائے اگر کھیتوں میں پیدا ہوتی تو ایشیائی ممالک میں اتنی افرا...
Categories
Blog Archive
- October 2021 (6)
- November 2013 (19)
- October 2013 (52)
- September 2013 (54)
0 comments:
Post a Comment