Friday 27 September 2013

فلسفہ حیات





رات کی ساعتیں شعلہ بدامن تھیں۔ فضا پر ہلکی ہلکی لرزش طاری تھی جیسے غیر مرئی روحیں کنج کنج کی سیر کرتی پھر رہی ہوں۔ اس پُرسکوت وقت میں محفل انجم گرم تھی۔ دھیمی دھیمی سر گوشیاں ہورہی تھیں جو بڑھتے بڑھتے شوخ قہقہوں میں تبدیل ہوجاتیں۔





ایکا ایکی ایک ننھے سے شہاب ثاقب نے اپنی جگہ سے حرکت کی گویا کوئی نئی تحریک پیش کرنے لگا ہو۔ لیکن دوسرے ہی لمحےاپنی کپکپاتی ہوئی دنیا سے نیچے کی طرف گرا اور فضاؤں کو چیرتا ہواغائب از نظر ہو گیا جیسے اندھیرے کے سینے پر نشتر چل پڑا ہو۔ اب اس کی ضوفشانی مفقود تھی اور جملہ تابانی نہاں۔





جہان فانی میں ہماری مثال بھی شہاب ثاقب سے کم نہیں۔ آسمان حیات پر ہستی کا نور جگمگاتا رہتا ہے، بڑھتی ہوئی شہرت اسے تاباں کر دیتی ہے اور معصومیت حد امکان تک درخشاں۔





لیکن جب فرشتہ موت کا بلاوا آتا ہے تو اس لطیف نور کو خیر باد کہنا پڑتا ہے اور جملہ دلچسپیوں کو الوداع۔





ہستی قبر کی گہرائی میں پنہاں ہوجاتی ہے جیسے کوئی ستارہ آسمان سے ٹوٹے اور زمین پر پہنچتا پہنچتا فضا میں گھل کر رہ جائے۔۔۔۔۔ اس کے باوجود لوگ زندگی کو اس قدر اہم سمجھتے ہیں۔ 





(کلیاتِ خلیل جبران)



0 comments:

Post a Comment

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood