Monday 30 September 2013

انتظار








میں نے انتظار کرنے والوں کو دیکھا۔ انتظار کرتے کرتے سو جانے والوں کو بھی اور مرجانے والوں کو بھی۔ میں نے مضطرب نگاہوں اور بے چین بدنوں کو دیکھاہے۔ آہٹ پر لگے ہوئے کانوں کے زخموں کو دیکھا ہے۔ انتظار میں کانپتے ہاتھوں کو دیکھا ہے۔ منتظر آدمی کے دو وجود ہوتے ہیں۔ ایک وہ ، جو مقررہ جگہ پہ انتظار کرتا ہے، دوسرا وہ، جو جسدِ خاکی سے جدا ہوکر پزیرائی کے لئے بہت دور نکل جاتا ہے۔ جب انتظار کی گھڑیاں دنوں، مہنوں، اور سالوں پر پھیل جاتی ہیں تو کبھی کبھی دوسرا وجود واپس نہیں آتا اور انتظار کرنے والے کا وجود، اُس خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے، جسے لوگ خوبصورت سمجھ کر سینت کے لئے رکھ لیتے ہیں اور کبھی اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے۔ یہ خالی ڈبہ کئی بار بھرتا ہے۔ قسم قسم کی چیزیں اپنے اندر سمیٹتاہے لیکن اس میں "وہ" لَوٹ کر نہیں آتا جو پزیرائی کےلئے آگے نکل گیا تھا۔ ایسے لوگ بڑے مطمئن اور پوری طرح شانت ہوجاتے ہیں۔ ان مطمئن، پرسکون اور شانت لوگوں کی پرسنیلٹی میں بڑا چارم ہوتا ہے اور انہیں اپنی باقی ماندہ زندگی اسی چارم کے سہارے گزارنی پڑتی ہے۔ یہی چارم آپ کوصوفیاء کی شخصیتوں میں نظر آئے گا۔ یہی چارم عمر قیدیوں کے چہرے پر دکھائی دے گا اور اسی چارم کی جھلک آپ کو عمر رسیدہ پروفیسرں کی آنکھوں میں نظر آئے گی۔ 





(سفر در سفر سے اقتباس، مصنف، اشفاق احمد)





0 comments:

Post a Comment

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood