میں نہیں جانتا کہ میرے پاؤں سے اور کتنی مسافتیں بندھی ہوئی ہیں اور نہ جانے زندگی کیسی کیسی مسافتوں کی تھکن اوڑھ کر سانس لینے کا قرض ادا کرتی چلی آئی ہے۔ اور میں کڑی دھوپ میں درختوں کے نیچے چھپتے ہوئے سائے کی طرح ہمیشہ اپنے آپ سے دوڑتا چلا آیا ہوں۔۔۔۔ ہارے ہوئے مسافر تھک کر سو گئے لیکن مجھے نیند نہیں آئی! ہر ہار کے بعد میں نےایک نئی مسافت کا لبادہ اوڑھ لیا کیونکہ سانس لینے کا قرض تو ادا کرنا ہی تھا۔
میں نے ہمیشہ چیزوں کے کھو جانے کا غم کیا لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ چیزوں کے کھوجانے سے زیادہ، ان کے کھوجانے کا احساس بڑا درد ناک ہوتا ہے۔ اور اب میں زندگی میں اتنا کچھ کھوچکا ہوں کہ کچھ پالینے کا احساس بھی مجھے ڈرا دیتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو درد سے بچنے کے لئے درد دسہتے ہیں! جنہیں سفر اور منزل سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، جنہیں خود ان کے اپنے ہاتھ سے کھینچی ہوئی لکیریں، انہیں ماضی کے کسی ویران کھنڈر تک لے جاتی ہیں۔۔ جہاں ٹوٹی پھوٹی یادیں روتے ہوئے دل کو دلاسے دیتی ہیں اور کبھی کبھی آنکھوں سے بہنے والی بارش ہر زخم کو نہلا دیتی ہے اور پھر زخموں سے شعاعیں پھوٹنے لگتی ہیں۔۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ زخم اور اشک کہاں تک اپنی چبھن اور کسک برقرار رکھیں گے؟ میری تنہائی پر کب تک میری خواہشیں ماتم کریں گی؟ یا کچھ سماعتوں کی نظر ہو کر ہوا میں تحلیل ہوجائے گی! میں شاید کچھ بھی نہیں جانتا۔۔۔!
(محمود ایاز کے ناول "محبت اور دسمبر" سے اقتباس)
0 comments:
Post a Comment