Friday 20 September 2013

بچ کے چلئے










ایک راستہ ہے اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں۔ ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ اس راستہ میں گھس جاتا ہے۔ اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں۔ کپڑا پھٹ جاتا ہے۔ اپنی منزل پر پہنچنے میں اس کو تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہوجاتا ہے۔ 





اب وہ آدمی کیا کرے گا۔ کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرے گا۔ کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کرے گا۔ وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے گا کہ دنیا کےتمام درختوں سے کانٹے کاوجود ختم کر دیا جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلہ سے دوچار نہ ہو۔ 





کوئی سنجیدہ اور باہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس وہ صرف یہ کرے گا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کریگا۔ وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو اللہ تعالٰی نے جب دو آنکھیں دی تھیں تو تم نے کیوں ایسا نہ کیا کہ کانٹوں سے بچ کر چلتے۔ تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹوں والے راستے سے نکل جاتے۔ اس طرح تمہارا جسم بھی محفوظ رہتا اور تم کو اپنی منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی۔





آج کی دنیا میں آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور جب کانٹے ان کے جسم کے ساتھ لگ کر انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر خود کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی نادانی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔





 ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہئے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں اسی طرح سماجی دنیا سے کانٹے دار انسان کبھی ختم نہیں ہونگے۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ اس دنیا میں محفوظ اور کامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ 





مولانا وحید الدین خان کی تصنیف، کتابِ زندگی سے ماخوذ


0 comments:

Post a Comment

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood