Wednesday, 2 October 2013

مے دان سیاست








ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ ہماری سنجیدہ باتوں پر ہنسنے کیوں لگتے ہیں اور ہماری مزاحیہ باتوں پر سنجیدہ کیوں ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی تو لگتا ہے وہ ہمیں بھی سیاست دان سمجھتے ہیں۔ بچپن میں ایک بار اسکول جاتے ہوئے ایک فیملی نے گاڑی روک کر راستہ پوچھا، "بیٹا کیا آپ بتاسکتے ہیں اس وقت ہم کہاں ہیں؟" ہم نے کہا "اپنی گاڑی میں" تو اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا "یہ بڑا ہوکر سیاستدان بنےگا۔" اس نے جو بتایا وہ درست ہے لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کہا جس کا ہمیں پہلے علم نہیں۔ لوگ اب یہ تو نہیں کہتے کہ بڑا ہوکر سیاستدان بنے گا یہ کہتے ہیں چھوٹا ہر کر سیستدان بنے گا، جو ہمیں پہلے سے علم نہیں۔ 





سیاستدانوں کے بارے میں ہم یہی جانتے تھے کہ عوام کے مسلئے حل کرتےہیں، کس میں حل کرتے ہیں؟ آپ کو پتا ہی ہے سب سے اچھا محلل کونسا ہے؟ ہم سمجھتے تھے کہ سیاستدانوں کے لئے سب سے بڑا مسلئہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلئہ نہ ہو لیکن پچھلے دنوں ایک سروے رپورٹ میں زندگی کے کے ہر شعبے کے لوگوں سے پوچھا گیا کہ پاستان کا سب سے بڑا مسلئہ کیا ہے تو اکثریت کا جواب تھا، "سیاستدان"۔ یہ پڑھ کر لگا کہ چلو ہم نے سیاستدان نہ بن کر قوم کو ایک مسلئے سے تو نجات دلائی۔





(ڈاکٹر یونس بٹ)


0 comments:

Post a Comment

Social Profiles

Twitter Facebook Google Plus LinkedIn RSS Feed Email Pinterest

Popular Posts

Blog Archive

Urdu Theme

Blogroll

About

Copyright © Urdu Fashion | Powered by Blogger
Design by Urdu Themes | Blogger Theme by Malik Masood